آزادی صحافت اور کنٹرولڈ میڈیا
آزادی صحافت اور کنٹرولڈ میڈیا
تحریر: آفتاب احمد گورائیہ
پاکستان میں صحافت اور میڈیا کی آزادی کی صورتحال کبھی بھی قابل رشک نہیں رہی ہے۰ پاکستانی پریس نے جنرل ضیا کے دورمیں بدترین سنسرشپ اور پابندیوں کا سامنا کیا ہے۰ جنرل ضیا کے دور میں سنسرشپ کا یہ عالم تھا کہ اخبارات کے صفحات کےصفحات خالی شائع ہوتے تھے، پیپلزپارٹی اور دوسری مارشل لا مخالف سیاسی جماعتوں کا نام لینا یا ان کی سرگرمیوں کے بارے کچھ بھی لکھنا جرم قرار پایا تھا۰ صحافیوں کو قید و بند اور کوڑوں کی سزائیں دی گئیں، ترقی پسند مصنفین اور شعرا کا قافیہ تنگ کیا گیا۰غرض ہر وہ کام کیا گیا جس سے مخالفت میں اٹھنے والی آواز کو دبایا جا سکے۰ جنرل ضیا کا دور ڈکٹیٹرشپ کا دور تھا جس میں پریس کی آزادی تو ایک طرف رہی اس دور میں تو ہر اس کام پر پابندی تھی جس کے بارے میں ذرا سا بھی شبہ ہوتا کہ اس کا تعلق انسانی حقوق سے ہو سکتا ہے۰ نہ جانے کیوں مجھے موجودہ دور حکومت میں بھی جنرل ضیا کے دور کی جھلک نظر آ رہی ہے۰ یقیناً اس کی
بنیاد موجودہ حکومت کی جانب سے پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر مخالف سوچ یا نکتہ نظر رکھنے والوں کے بارے میں عدم برداشت کا رویہ ہے۰ موجودہ حکومت مقتدر قوتوں کے ساتھ ایک پیج پر ہونے کا دعوی بڑے فخر سے کرتی ہے، اسی ایک پیج پرہونے کی وجہ سے مقتدر قوتیں بھی اپنے سیاسی اتحادی یا بغل بچے کی آزادی صحافت کے بارے مجرمانہ غفلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے براہ راست میڈیا اور صحافت کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۰
حال ہی میں ایک حکومت مخالف آزاد منش صحافی مطیع اللہ جان کا دن دن دہاڑے بظاہر نامعلوم لیکن سرکاری یونیفارم میں ملبوس افراد کی جانب سے اغوا اور پھر سوشل میڈیا پر اٹھنے والے شور کے بعد رات گئے چھوڑ دینا پاکستان میں حکومت مخالف سوچ رکھنے والے صحافیوں کے لئے بڑا واضح پیغام ہے۰ اس کے علاوہ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات ریٹائرڈ جنرل عاصم باجوہ سے ان کے اثاثوں کے بارے سوال پوچھنے والے صحافی کو نوکری سے نکلوا دینا بھی عدم برداشت کے اسی رویہ کی عکاسی کرتا ہے۰ موجودہ حکومت کی ان صحافت دشمن پالیسیوں کی باعث ہی پاکستان ورلڈ پریس فریڈم انڈکس میں چھ درجے تنزلی کے بعد 180 ملکوں کی فہرست میں 145 ویں نمبر پر آ چکا ہے۰
پیمرا کے ذریعے مختلف ٹی وی چینلز کو پریشرائز کرنا، ان کے پروگرامز پر پابندی لگانا اور چینلز پر پابندیوں اور بند کرنے جیسے انتہائی اقدامات بھی موجودہ دور کی میڈیا پالیسی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہیں۰ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کے ریکارڈ شدہ انٹرویو کوروک دینا اور نہ چلنے دینا بھی ڈکٹیٹرشپ کے سیاہ دور کی سنسرشپ اور پابندیوں کی یاد دلاتا ہے۰ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ انہی ٹی وی چینلز پر ہزاروں انسانوں کے قاتل احسان اللہ احسان جس نے اے پی ایس میں شہید ہونے والے بچوں کے قتل کی ذمہ داریبھی قبول کر رکھی ہے اس کے انٹرویو کو پورے طمطراق کے ساتھ دکھایا گیا۰ کچھ ماہ پہلے یہی دہشت گرد جب سخت سیکیورٹی کےباوجود فرار ہو گیا یا کروا دیا گیا تو تمام چینلز پر یہ خبر معمول کے ایک واقعہ جتنی اہمیت بھی نہ لے سکی اور سرسری انداز میں اس اہم ترین خبر کو نشر کرنے کے بعد ہمیشہ کے لئے بھلا دیا گیا۰ نہ تو اس خبر پر کسی تبصرے اور نہ ہی کسی پروگرام کی اجازت دی گئی جبکہ انہی ٹی وی چینلز پر کراچی میں بارش کے بعد جمع ہونے والے پانی اور عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ پر پرائم ٹائم میں گھنٹوں پروگرام کئے جاتے ہیں لیکن احسان اللہ احسان کے فرار کی اہم ترین خبر کا مکمل بلیک آوٹ کیا گیا۰
ایک طرف اگر غیر جانبدارنہ صحافت کی راہ میں حکومتی دباو، سنسرشپ اور دوسری پابندیاں آڑے آتی ہیں تو دوسری جانب کچھ میڈیا ہاوسز کی اپنی پالیسیوں میں بھی حکومتی جھکاؤ واضح نظر آتا ہے۰ اپوزیشن کی ٹاپ لیڈرشپ کی پریس کانفرنسز کا بلیک آوٹ اورحکومتی عہدیداروں، وزرا اور مختلف لیول کے درجنوں ترجمانوں کی چھوٹی سے چھوٹی سرگرمی کی مکمل کوریج، کچھ اینکرز کی جانب سے اپوزیشن رہنماؤں کی مسلسل کردار کشی اور حکومت کی بے جا مدح سرائی ان کی جانبدارانہ صحافتی پالیسیوں کی غمازی کرتی نظرآتی ہے۰ اس لئے اگر حکومتی میڈیا پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت ہے تو اس کے ساتھ ساتھ میڈیا ہاوسز کو بھی اپنی حکومت نوازپالیسیوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ آزادی صحافت اور غیر جانبدارانہ صحافت کے تقاضوں کو پورا کیا جا سکے۰
پچھلی دو دہائیوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو پیپلزپارٹی کا دور حکومت واحد ایسا دور نظر آتا ہے جس میں تمام میڈیا ہاوسز مکمل آزادی کےساتھ اپنا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں اور پیپلزپارٹی آزادی صحافت کی واحد چمپئین نظر آتی ہے۰ پیپلزپارٹی کی اس آزادانہ میڈیا پالیسی کی تعریف پیپلزپارٹی کے وہ بدترین مخالف اینکرز بھی کرتے نظر آتے ہیں جن کا کام ہی پیپلزپارٹی کے خلاف بولنا ہے۰ یہ اینکرز تسلیم کرتے ہیں کہ جتنی تنقید پیپلزپارٹی پر کی گئی ہے کسی اور جماعت پر نہیں کی گئی لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت کی جانب سےکبھی کوئی ایسا ہیھکنڈہ استعمال نہیں کیا گیا جس سے آزادی صحافت پر کوئی حرف آئے۰ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں اردشیر کاوس جی سے جب ایک اینکر نے میڈیا کی آزادی کے بارے سوال کیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارا میڈیا آزاد ہو چکا ہے تو اردشیر کاوس جی نے جواب دیا کہ ہمارا میڈیا آزاد ہی نہیں ہوا بلکہ آوارہ بھی ہو گیا ہے۰ اس دور میں سیاستدانوں کی تضحیک کے بارے کئےجانے والے کچھ پروگرام اسی آوراگی کی مثال ہیں۰ میڈیا کی پیپلزپارٹی کے بارے جانبدارانہ پالیسی کے باوجود پیپلزپارٹی میڈیا کےحق میں اٹھنے والی آج بھی سب سے توانا آواز ہے جس کا اعتراف اپنے اور بیگانے سبھی کرتے ہیں۰
موجودہ وزیر اطلاعات شبلی فراز نامور ترقی پسند شاعر احمد فراز کے صاحبزادے ہیں۰ اپنی مزاحمتی شاعری اور ترقی پسند نظریات کےباعث احمد فراز جنرل ضیا کے دور میں قید و بند اور جلاوطنی کا شکار رہے۰ احمد فراز کے بیٹے کا ضیا دور جیسے نظریات اور میڈیا پالیسی رکھنے والی حکومت کے دور میں وزیر اطلاعات جیسے منصب پر بیٹھ کر اس کی پالیسی پر چلنا کچھ عجیب سا لگتا ہے۰ تحریک انصاف کو اپوزیشن کے دنوں سے لے کر اب تک میڈیا کا بھرپور تعاون میسر رہا ہے۰ دھرنے کے دنوں میں اور بعد میں عمران خان کے جلسوں کی کوریج کے لئے سپیشل ٹرانسمیشنز کی جاتی رہی ہیں۰ پرائم ٹائم میں تحریک انصاف کے لوگوں کو لے کر پورے پورے پروگرام کئے جاتے رہے ہیں۰ میڈیا کی جتنی سپورٹ عمران خان اور ان کی پارٹی کو ملی ہے اتنی سپورٹ کسی اور جماعت کو نہیں مل سکی۰ حکومت میں آنے کی بعد اس سپورٹ کا جواب آزادی صحافت کے مسلمہ اصولوں پر کاربند رہ کر دینے کی بجائے عمران حکومت نے آزادی صحافت کا گلا گھونٹ کر دیا ہے۰ موجودہ حکومت کی کوششش ہے کہ حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز چاہے وہ پرنٹ میڈیا کی ہو، الیکٹرانک میڈیا کی ہو یا سوشل میڈیا کی اس کو دبا دیا جائے۰
تحریک انصاف کی حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ حکومت ہمیشہ نہیں رہتی ایک دن اس حکومت کو بھی ختم ہونا ہے اور حکومت ختم ہونے کے بعد تحریک انصاف کو میڈیا کا وہ تعاون شائد میسر نہ رہ سکے جس کی وہ عادی ہو چکی ہے۰ حکومت کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ایک صفحہ تاریخ کا بھی ہوتا ہے جس پر موجودہ حکومت کی بدترین صحافتی پالیسیوں کو سیاہ حروف سے لکھا جائے گا۰
Twitter: @GorayaAftab
Date: 08-08-2020