ایک متنازعہ تحریر
ایک متنازعہ تحریر
تحریر: آفتاب احمد گورائیہ
“ایک متنازعہ تحریر” اس عنوان کو دیکھ کر شاید کئی دوست چونک جائیں، مگر میں نے خود شعوری طور پر اپنی اس تحریر کو متنازعہ قرار دیا ہے کیونکہ مجھے اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ اس تحریر میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے، اس سے بہت کم لوگ اتفاق کریں گے، اور زیادہ تر دوستوں کی ناراضگی یا ناپسندیدگی کا امکان موجود ہے۔ تاہم، بعض سچائیاں ایسی ہوتی ہیں جنہیں نظرانداز کرنا وقتی سکون تو دے سکتا ہے، مگر طویل المدت نقصان سے بچا نہیں سکتا۔ اختلافِ رائے سے گھبرانا نہیں چاہیے، بشرطیکہ وہ نیت اور دلیل دونوں کی بنیاد پر ہو۔ میری اس تحریر کا مقصد ایک سنجیدہ مکالمے کی دعوت دینا ہے جہاں بات صرف پسند و ناپسند کی نہیں، بلکہ سچ کو سچ کہنے کی جرأت کی بھی ہو۔
میری اس تحریر کا مقصد پیپلزپارٹی ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر اس کے آغاز سے ہی شروع ہو جانے والی منفی تنقید کے بارے مکالمہ شروع کرنا ہے۔ تنقید کرنا یقیناً ایک جمہوری حق ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس تنقید کی کوئی سمت ہے؟ کوئی معیار، کوئی کسوٹی؟ آخر کن بنیادوں پر یہ فیصلہ صادر کر دیا جاتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا ڈیجیٹل میڈیا ناکام ہو چکا ہے؟ کیا پیپلزپارٹی کا ڈیجیٹل میڈیا اپنے آغاز کے پہلے دن ہی ناکام ہو گیا تھا کیونکہ پیپلزپارٹی ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر تنقید تو پہلے دن ہی شروع ہو گئی تھی اور اس بات کا انتظار بھی نہیں کیا گیا تھا کہ تنقید کرنے سے پہلے سال چھ مہینے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کی پرفارمنس تو دیکھ لی جائے۔ ایسی پوسٹس تو روز نظر آتی ہیں جن میں محض جذباتی جملے اور مبالغہ آرائی ہوتی ہے، لیکن کہیں یہ وضاحت نہیں ملتی کہ اصل ناکامی ہے کیا؟ کس فریم ورک یا اہداف کے تناظر میں یہ تجزیہ کیا گیا ہے؟ اگر کام نظر نہیں آ رہا تو کیا یہ سوشل میڈیا کا مسئلہ ہے یا سیاسی بیانیے کی سطح پر کوئی کمی رہ گئی ہے؟
یہ کہنا کہ لاکھوں کی تنخواہیں اور مراعات دی جا رہی ہیں لیکن نتیجہ صفر ہے ایک عمومی اور سہل تجزیہ ہے، جو نہ تو مسائل کی جڑ تک پہنچتا ہے اور نہ ہی اصلاح کی کوئی سنجیدہ تجویز پیش کرتا ہے۔ کیا کبھی یہ سوال اٹھایا گیا اور اس کا جواب نہیں مل سکا کہ مواد کی دستیابی میں کمی ہے؟ یا سوشل میڈیا ایکٹویسٹس کو پارٹی بیانیے تک مؤثر رسائی حاصل نہیں؟ کیا سوشل میڈیا ایکٹویسٹس خود کو نظر انداز محسوس کرتے ہیں، یا ان کی تجاویز کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ کم از کم میری نظر سے کبھی ایسی کوئی تنقیدی پوسٹ نہیں گزری جس میں ایشوز کی واضح نشاندہی اور ان کا حل بھی تجویز کیا گیا ہو زور صرف منفی تنقید پر ہی ہوتا ہے۔
جہاں تک لاکھوں کے خرچے وغیرہ کے بارے کئے جانے والے واویلے کا تعلق ہے تو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ ڈیجیٹل میڈیا کو اگر واقعی مؤثر، پائیدار اور نتیجہ خیز بنانا ہے تو اسے محض جذبے یا رضاکارانہ کوششوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس شعبے کو سائنسی اور پروفیشنل بنیادوں پر استوار کرنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ جتنا بجٹ روایتی میڈیا یا دیگر پارٹی امور پر صرف کیا جاتا ہے، اس سے کہیں زیادہ اہمیت اب ڈیجیٹل میڈیا کی ہو چکی ہے۔ اس لیے اگر اس میدان میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے افراد کو، خواہ وہ جتنی بھی تنخواہ پر کیوں نہ آئیں، ضرور شامل کرنا چاہیے۔ کیوں کہ میرے جیسا ایک عام کارکن خود محض دو چار جملوں کی پوسٹ لکھ سکتا ہے یا کسی کرنٹ ایشو پر ایک آرٹیکل لکھ کے ایکس پر پوسٹ کر سکتا ہے، لیکن اس سے آگے کی تکنیکی مہارت، حکمت عملی اور تجزیاتی صلاحیت ایک ماہر ڈیجیٹل میڈیا ٹیم ہی فراہم کر سکتی ہے۔
سوشل میڈیا پر ریچ ڑھانے کے لیے الگورتھمز کی سمجھ، رجحانات (ٹرینڈز) کا بروقت ادراک، سوشل میڈیا ناظرین کی درجہ بندی اور ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے لحاظ سے مخصوص مواد تیار کرنے کے لئے تکنیکی مہارت درکار ہوتی ہیں۔ اپنے ٹارگٹ صارفین کو مؤثر انداز میں متوجہ کرنے کے لیے صرف نعرے یا جذباتی پوسٹس کافی نہیں، بلکہ ایسے دیدہ زیب، تخلیقی اور مؤثر مواد کی ضرورت ہوتی ہے جو ہر عمر، ہر طبقے، اور ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے صارف کو متاثر کر سکے چاہے وہ ایکس ہو، فیس بک، انسٹاگرام، یوٹیوب یا ٹک ٹاک۔
جہاں تک مواد کی بات ہے پیپلزپارٹی ڈیجیٹل نے اس پر کافی کام کیا ہوا ہے اور یہ سارا مواد پیپلزپارٹی ڈیجیٹل کے چینل پر موجود ہے اور جو سوشل میڈیا ایکٹویسٹ چاہے اس سے استفادہ کر سکتا ہے۔ اس سے بھی ایک قدم آگے اگر کسی کو کسی خاص مواد کی ضرورت ہو تو ڈیجیٹل میڈیا ٹیم وہ بھی مہیا کر سکتی ہے۔ اگر ہمیں یاد ہو تو فروری 2024 کے الیکشن کی انتخابی مہم کے دوران ہم سب یہ مواد شئیر کرتے بھی رہے ہیں۔
مزید یہ کہ، ڈیجیٹل ٹیم کو نہ صرف موجودہ حالات کا تجزیہ آنا چاہیے بلکہ انہیں predictive tools کے ذریعے مستقبل کے رجحانات کو بھانپنے اور ان کے مطابق تیاری کرنے کی صلاحیت بھی ہونی چاہیے۔ ایک مربوط ڈیجیٹل میڈیا سسٹم کے تحت روزانہ کی بنیاد پر کارکردگی کا تجزیہ، audience behavior کی رپورٹنگ، اور اصلاحاتی فیڈبیک کا عمل بھی شامل ہونا چاہیے۔ پیپلزپارٹی ڈیجیٹل کے ذمہ داران کو دیکھنا چاہیئے کہ اگر اس میں مزید ماہر افراد کو شامل کرنا پڑے تو یہ کوئی غیر ضروری خرچ نہیں بلکہ ایک ضروری سرمایہ کاری ہے، کیونکہ آج کی سیاست میں بیانیہ وہی جیتتا ہے جو ڈیجیٹل فضا میں زندہ رہے۔
ہمارا اصل المیہ یہ ہے کہ ہم، بشمول میری ذات، سوشل میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے اکثر اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت نہیں کرتے۔ ہم پارٹی کے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کو، جسے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ہمارے اجتماعی مطالبے، بدلتے ہوئے ڈیجیٹل تقاضوں اور تیزرفتار اطلاعاتی ماحول کے پیشِ نظر تشکیل دیا، مسلسل تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں وہ بھی اکثر بغیر تحقیق، بغیر پس منظر اور بغیر کسی تعمیری تجویز کے۔ یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ایسی بے ہنگم اور غیر ذمہ دارانہ تنقید پارٹی کو مضبوط کرنے کے بجائے مخالفین کو مواد فراہم کرتی ہے، جنہیں پارٹی کی صفوں میں دراڑ ڈالنے کے لئے صرف بہانہ درکار ہوتا ہے۔
ہمیں یہ فرق واضح طور پر سمجھنا ہوگا کہ سوشل میڈیا ایکٹویسٹ ہونا اور سوشل میڈیا ایکسپرٹ ہونا دو الگ صلاحیتیں ہیں۔ ہر فرد، جس کے ہاتھ میں موبائل ہے اور جسے ایکس یا فیس بک اکاؤنٹ چلانا آتا ہے، وہ خودبخود ڈیجیٹل حکمتِ عملی کا ماہر نہیں بن جاتا۔ اسی طرح، تنقید اور بہتری کی خواہش کے نام پر کی جانے والی منفی پروپیگنڈا مہمات نہ تو آزادی اظہار کے زمرے میں آتی ہیں، نہ ہی نظریاتی جدوجہد کہلاتی ہیں، اور نہ ہی یہ کوئی بہادری کا کام ہے۔ گمنام یا فرضی شناختوں سے پارٹی کارکنوں یا اداروں پر کیچڑ اچھالنا دراصل نظریاتی زہر پھیلانے کے مترادف ہے، اور اس کا فائدہ صرف اور صرف مخالفین کو ہوتا ہے۔
ہمیں دیانتداری سے خود سے یہ سوال پوچھنا ہوگا کہ کیا ہم واقعی اپنی پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے آن لائن سرگرم ہیں یا صرف اپنی ذاتی انا کی تسکین اور وقتی پذیرائی کے لیے؟ کیا ہمارا مقصد پارٹی کا بیانیہ عام عوام تک پہنچانا ہے یا ہم اپنے ہی ہاتھوں سے اس کی ساکھ کو مجروح کر رہے ہیں؟ وقت آ گیا ہے کہ سوشل میڈیا کو شکایت، الزام تراشی یا مایوسی کا پلیٹ فارم بنانے کے بجائے اسے نظریاتی اصلاح، باہمی رہنمائی اور سیاسی تربیت کا ذریعہ بنایا جائے۔ اگر کسی پالیسی، کسی فرد یا ادارے سے اختلاف ہے تو اسے پارٹی فورمز پر مہذب، مثبت اور تعمیری انداز میں اٹھایا جائے نہ کہ سوشل میڈیا پر بیٹھ کر مخالفین کو تماشا اور مواد فراہم کیا جائے۔
آج اگر کوئی ڈیجیٹل ٹیم کا رکن یا عہدیدار ہے تو کل اس کی جگہ کوئی اور آ جائے گا، لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کا پلیٹ فارم کل بھی تھا، آج بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ ادارے افراد سے بالا ہوتے ہیں، اور کارکن کا اصل فرض ادارے کو مضبوط بنانا ہے، نہ کہ عارضی ناموں سے وابستگی کو انا کا مسئلہ بنا لینا۔ اگر ہم خود کو پارٹی کا نظریاتی کارکن سمجھتے ہیں تو ہمیں اپنے رویوں میں سنجیدگی، سیاسی بصیرت، اور اجتماعی مفاد کو اولیت دینا ہوگی۔ سوشل میڈیا ہمیں آواز ضرور دیتا ہے، مگر یہ آواز صرف اُس وقت مؤثر اور باوقار بن سکتی ہے جب اس میں شعور، تہذیب، ذمہ داری، اور پارٹی ڈسپلن کا عنصر شامل ہو۔ یہی اصل نظریاتی وابستگی ہے کہ ہم اختلاف رکھتے ہوئے بھی اتحاد کا دامن نہ چھوڑیں، تنقید کرتے ہوئے بھی احترام قائم رکھیں، اور سب سے بڑھ کر، ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر اپنی جماعت کو مضبوط بنانے کے لیے کردار ادا کریں۔ یہی وہ سوچ ہے جو پاکستان پیپلز پارٹی کو باقی جماعتوں سے ممتاز بناتی ہے یعنی ایک نظریہ، ایک روایت، اور ایک روشن مستقبل کی جدوجہد۔
Dated: 16-06-2025