انتہاپسندی کا عفریت
انتہاپسندی کا عفریت
تحریر: آفتاب احمد گورائیہ
پاکستان میں اس وقت انتہاپسندی اس نہج پر جا پہنچی ہے جہاں عقل اور برداشت کی گنجائش تیزی سے سکڑتی جا رہی ہے۔ وہ پاکستان جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا، کہیں تاریخ کے صفحات میں گم ہو چکا ہے۔ موجودہ پاکستان اس وقت نفرت، لسانیت، انتہاپسندی اور شدت پسندی کے قبضے میں ہے۔ کہنے کو ہم “اسلامی جمہوریہ” ہیں، مگر نہ جمہوریت باقی رہی اور نہ اسلامی اقدار۔ جمہوریت آمریت سے مسلسل ٹکراتے ٹکراتے نیم جان ہو چکی ہے، اور اسلامی تشخص فرقہ واریت کے بوجھ تلے دم توڑ رہا ہے۔ اقبال نے کہا تھا “یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو، تم سبھی کچھ ہو، کیامسلمان بھی ہو؟” اگر آج کوئی اس شعر کی عملی تصویر دیکھنا چاہے تو ہمیں دیکھ لے۔ انتہاپسندی کا حال یہ ہے کہ اگر علامہ اقبال آج کے زمانے میں “شکوہ” لکھتے تو “جواب شکوہ” آنے سے پہلے ہی کوئی خودساختہ “غازی” ان پر حملہ کر کے جنت کا سرٹیفیکیٹ حاصل کر لیتا۔
پاکستان میں انتہا کو چھوتی ہوئی انتہاپسندی اور شدت پسندی کا سرا ڈکٹیٹر ضیا کے دور آمریت سے جا ملتا ہے۔ اس دور میں جہاں کئی سیاسی اور سماجی بگاڑ پیدا ہوئے، وہیں فرقہ واریت، لسانیت اور مذہبی عدم برداشت کو ریاستی سرپرستی حاصل رہی۔ ضیا دور میں مذہبی اور لسانی بنیادوں پر کئی گروہ وجود میں آئے، جنہیں عوام کو تقسیم کرنے اور سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ آمر کے جانے کے بعد بھی یہی عناصر مختلف قوتوں کی چھتری تلے پنپتے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک نفرت، تعصب اور انتہاپسندی کے دلدل میں دھنس گیا۔ آج اختلاف رائے رکھنے والا ہر شخص اپنی جان اور مال کے حوالے سے غیر محفوظ ہے۔
پاکستان دنیا کے اُن چند ممالک میں شامل ہے جہاں مسلمان آبادی 97 فیصد سے زیادہ ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ اخلاقی زوال اپنی انتہا کو چھو رہا ہے۔ پورن سرچز میں ہم دنیا بھر میں سرفہرست ہیں۔ مدارس کے معصوم طلبہ، حتیٰ کہ چھوٹے بچے اور بچیاں بھی محفوظ نہیں۔ قبروں میں سوئی ہوئی خواتین تک درندگی کا شکار ہو رہی ہیں۔ ہر شخص عاشقِ رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے مگر کردار اور عمل اس دعوے کی مکمل نفی کرتے ہیں۔
گزشتہ ایک سال کے دوران پنجاب میں چھ سے سات ایسے دل خراش واقعات رونما ہوئے جن پر حکومت اور انتظامیہ نے معنی خیز خاموشی اوڑھے رکھی۔ احمدی کمیونٹی کی عبادت گاہوں پر حملے کیے گئے، قبروں کی بے حرمتی کی گئی، حتیٰ کہ جانوروں تک کو نہیں بخشا گیا۔ مسیحی بستیوں پر حملے ہوئے، بستیاں راکھ بنا دی گئیں، اور ریاست تماشائی بنی رہی۔ اس مجرمانہ خاموشی نے شدت پسند جتھوں کے حوصلے اس حد تک بڑھا دیے کہ وہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے لگے۔ حالیہ دنوں میں پولیس اور رینجرز کے خلاف ایک شدت پسند مذہبی گروہ کی کھلی مزاحمت نے ثابت کر دیا کہ انتہاپسندی کا جن اب مکمل طور پر بوتل سے باہر آ چکا ہے اور ریاستی رٹ اس کے سامنے عملاً مفلوج ہو چکی ہے۔
انتہاپسندی کے پھیلاؤ کا ایک گہرا سیاسی پہلو یہ بھی ہے کہ جب قومی سیاسی جماعتوں کو منظم انداز میں کمزور کیا گیا تو سیاست کا خلا شدت پسند گروہوں نے پُر کر لیا۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کو شعوری طور پر سیاسی عمل سے باہر رکھنے کی کوششوں نے صوبے کی سیاسی فضا کو یکطرفہ کر دیا۔ پیپلز پارٹی کے کمزور ہونے سے پیدا ہونے والا یہ خلا مذہبی انتہاپسند گروہوں نے بھر دیا، جو رفتہ رفتہ اتنے مضبوط ہوگئے کہ اب وہ حکومت کی رٹ کو کھلے عام چیلنج کرنے لگے ہیں۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران تحریک انصاف نے نون لیگ پر وہ سیاسی و غیر سیاسی حملے کیے جنہوں نے نون لیگ کو دفاعی پوزیشن پر دھکیل دیا۔ لاہور جیسا روایتی گڑھ بھی اس کے ہاتھ سے نکلنے لگا۔ لیکن اس تمام پس منظر کے باوجود نون لیگ اور خاص طور پر مریم نواز، پیپلز پارٹی جیسی وفاقی اور نظریاتی جماعت کو پنجاب میں دوبارہ قدم جمانے کی کوئی گنجائش دینے پر آمادہ نہیں۔ انہیں اندیشہ ہے کہ اگر پیپلز پارٹی نے دوبارہ اپنی جگہ بنالی تو اقتدار کے ایوانوں میں نون لیگ کا تسلط خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
یہی وہ سیاسی کوتاہی ہے جو نون لیگ کے مزاج کا مستقل حصہ بن چکی ہے۔ اس جماعت میں ہمیشہ سے دور اندیشی اور حکمتِ عملی کی کمی رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں نون لیگ مخالف ووٹ بینک بہت وسیع ہے، اور اس وقت اس کا بڑا حصہ تحریک انصاف کے پاس ہے، جو ایک غیر سیاسی سوچ اور انتقامی طرزِ سیاست کی نمائندہ جماعت بن چکی ہے۔ اگر پیپلز پارٹی کو پنجاب میں دوبارہ سیاسی اسپیس میسر آئے تو پیپلزپارٹی غیر سیاسی سوچ کی جگہ ایک نظریاتی، جمہوری اور وفاقی متبادل فراہم کر سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی اگر مخالفت کرے گی تو اصولی اور سیاسی بنیادوں پر کرے گی نہ کہ ذاتی اور انتقامی سطح پر جا کر مخالفت کرے گی۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی جیسی قومی جماعت، جس کی جڑیں چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں پھیلی ہوئی ہیں، اگر پنجاب میں بھی اپنی جگہ مستحکم کرے تو اس سے شدت پسند گروہوں کا بیانیہ کمزور ہوگا۔ وفاقی سیاست ہی وہ توازن پیدا کر سکتی ہے جو انتہاپسندی کے پھیلاؤ کو روک سکے۔ بدقسمتی سے، وزیراعلی پنجاب مریم نواز کی جانب سے حالیہ دنوں میں پیپلز پارٹی کے خلاف مہم جوئی، پنجابی کارڈ کا استعمال اور صوبائیت کے بیانیے کو ہوا دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ نون لیگ میں آج بھی حقیقت کا ادراک کرنے اور مستقبل کی سیاسی سمت طے کرنے والی سوچ ناپید ہے۔ ایسے میں خطرہ یہ ہے کہ سیاسی تنگ نظری، انتہاپسندی کے بیجوں کو مزید زرخیز کرتی رہے گی اور پنجاب کا سیاسی منظر، جمہوری اعتدال کے بجائے، انتہا کے نئے رنگ اختیار کر لے گا۔ ایک دوسرا پہلو یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ صرف نون لیگ ہی نہیں بلکہ طاقت کے دوسرے مراکز میں بھی شائد یہ سوچ موجود ہو کہ پیپلزپارٹی جیسی نظریاتی اور سیاسی سوچ رکھنے والی جماعت کا سب سے بڑے صوبے پنجاب میں طاقتور ہو جانا ان کے اقتدار و اختیار کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہی وہ پاکستان ہے جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا؟ کیا وہ ایک ایسا ملک چاہتے تھے جہاں نفرت، انتہاپسندی اور عدم برداشت کا راج ہو؟ یا وہ پاکستان جو انہوں نے گیارہ اگست 1947 کی تاریخی تقریر میں واضح الفاظ میں بیان کیا تھا جہاں ہر شہری کو مذہب، عقیدہ اور عبادت کی آزادی حاصل ہو۔ قائداعظم نے فرمایا تھا “آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے، آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانےکے لیے، اور ریاستِ پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا نسل سے ہو، ریاست کا اسسے کوئی لینا دینا نہیں۔” آج اربابِ اختیار و اقتدار کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا ہم نے قائداعظم کے اس وژن کو زندہ رکھا یا دفن کر دیا؟ افسوس کہ موجودہ پاکستان، وہ پاکستان نہیں جس کا وعدہ قائداعظم نے اپنی قوم سے کیا تھا۔
آج کا پاکستان انتہاپسندی، نفرت اور عدم برداشت کا استعارہ بن چکا ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں قائداعظم کے افکار کی پاسداری کرنے والوں کو “کافرِاعظم” کہنے والے سرِعام سینہ تان کر چلتے ہیں۔ یہ وہ موڑ ہے جہاں ہمیں رک کر خود سے سوال کرنا ہوگا کہ کیا یہ وہی وطن ہے جس کے لیے کروڑوں لوگوں نے قربانیاں دیں؟
ذرا سوچیے، ہم نے اپنے قائد کے خواب کو کیا سے کیا بنا دیا۔
Dated: 12-10-2025