کہاں ہے ریاست مدینہ
کہاں ہے ریاست مدینہ
تحریر: آفتاب احمد گورائیہ
موجودہ حکومت کے حلف اٹھانے سے پہلے وزیراعظم نے دعوی کیا تھا کہ ہم لوگ ریاست مدینہ جیسی حکومت تشکیل دینے جارہے ہیں۰ آج یہ حکومت دو سال مکمل کرنے کے بعد تیسرے سال میں داخل ہو چکی ہے تو وزیراعظم کے دعوی کے مطابق اب تک ریاست مدینہ کے خدوخال کافی حد تک واضح ہو جانے چاہیے تھے لیکن آج حالت یہ ہے کہ ریاست مدینہ تو رہی ایک طرف، صورتحال یہ بن چکی ہے کہ ریاست عوام کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت جیسی بنیادی ذمہ داریاں ادا کرنے سے بھی قاصر نظر آتی ہے۰ عوام کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت تو ایک کافر ریاست کی بھی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن یہاں تو دعوی ریاست مدینہ کا تھا۰
معیشت کی تباہی، مہنگائی، کرپشن اور حکومت کی دوسری نااہلیوں اور ناکامیوں کو اگر ایک طرف رکھ کر صرف امن و امان اور روزمرہ کے جرائم کی صورتحال پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو پولیس کے نظام میں انقلابی اصلاحات کا دعوی کرنے والی تحریک انصاف کی حکومت کا دامن بالکل خالی نظر آتا ہے۰ پولیس کے نظام میں بہتری تو کیا آنی تھی صورتحال پہلے سے بھی بدتر ہو چکی ہے۰ دو سال کے عرصے میں صوبہ پنجاب میں اب تک پانچ آئی جی تبدیل ہو چکے ہیں۰ یاد رہے یہی عمران خان تھے جو اپوزیشن کے دنوں میں کہا کرتے تھے کہ آئی جی کو پورے تین سال ملنے چاہیں تاکہ وہ پورے اختیار کے ساتھ پولیس فورس کو کمانڈ کر سکے لیکن حکومت میں آنے کے بعد یہی عمران خان کسی بھی آئی جی کو چار ساڑھے ماہ سے زیادہ ٹکنے ہی نہیں دے رہے۰
پچھلے دور حکومت میں خیبرپختونخوا میں پولیس اصلاحات کا بہت زیادہ پروپیگنڈہ کیا گیا اور خیبرپختونخوا کے سابق آئی جی ناصر درانی کوپنجاب میں پولیس اصلاحات کی ذمہ داری سونپی بھی گئی لیکن پولیس اور ناصر درانی کے کام میں بے جا مداخلت کے باعث ایک ڈیڑھ ماہ بعد ہی ناصر درانی نے ہاتھ کھڑے کر دئیے اور استعفی دے کر اپنی عزت بچانے میں ہی عافیت جانی۰ اب صورتحال یہ ہے کہ کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ پنجاب کا اصل حکمران ہے کون۰ ویسے تو عثمان بزدار کا چہرہ بطور وزیراعلی موجود ہے لیکن اصل معاملات وزیراعظم ہاؤس اور بنی گالہ سے براہ راست چلائے جا رہے ہیں۰ ہر تین چار ماہ کے بعد تبادلوں کا دور چلتا ہے سیکرٹریوں سے لے کر پولیس افسران تک سب کی اکھاڑ پچھاڑ کی جاتی ہے۰ نئے آنے والوں کی تعریفوں کے پُل باندھے جاتے ہیں اور پھر تین چار ماہ کے بعد انہی افسروں پر ناکامی کا لیبل لگا کر ہٹا دیا جاتا ہے۰
موجودہ حکومت کے آغاز سے لے کر اب تک واقعات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ نہ تو عوام کی جان و مال کے تحفظ کے ذمہ دار اداروں پر حکومت کا کوئی کنڑول ہے اور نہ ہی حکومت عوام کے جان و مال کےتحفظ اور انصاف کی فراہمی میں سنجیدہ نظر آتی ہے۰ موجودہ حکومت کے آغاز کے دنوں میں لاہور جیسے شہر میں ایک واقعہ ہوا جس نے پہلے دن سے حکومت کی سمت واضح کر دی کہ حکومت کے ریاست مدینہ کے دعوی میں کتنی سچائی ہے اور کتنا پروپیگنڈہ ہےجب لاہور شہر میں رات کے وقت پنجاب کے ایک صوبائی وزیر کا بیٹا کار میں ایک لڑکی کے ساتھ برہنہ حالت میں پکڑا گیا۰ بجائےاس کے کہ صوبائی وزیر کے بیٹے کے خلاف کاروائی ہوتی الٹا صوبائی وزیر کے بیٹے نے پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا کر ان پر تشدد کرنے کے بعد انہی کے خلاف پرچہ درج کروا دیا۰ صوبائی وزیر کے بیٹے کا بال بھی بیکا نہ ہوا اور اسے پکڑنے والے پولیس اہلکاروں کو سزا بھی مل گئی۰ لاہور والے واقعہ کے کچھ ہی عرصہ بعد پاکپتن میں خاتون اوّل کے سابقہ خاوند خاور مانیکا کی گاڑی میں اسلحہ دیکھ کر پولیس اہلکاروں نے گاڑی کو ناکے پر روکا جس پر خاور مانیکا نے گاڑی روکنے سے انکار کرتے ہوئے گاڑی بھگا دی جس پر پولیس اہلکاروں نے گاڑی کا پیچھا کرنے کے بعد گاڑی روک لی۰ معاملہ وزیراعلی تک پہنچا۰ ڈی پی او پاکپتن کو وزیراعلی ہاؤس طلب کیا گیا جہاں وزیراعلی سمیت کچھ غیر متعلقہ لوگوں نے ڈی پی او پاکپتن پر خاور مانیکا کے ڈیرے پر جا کر معافی مانگنے کے لئے دباو ڈالا۰ ڈی پی او کے انکار پر آئی جی پنجاب نے ڈی پی او پاکپتن کو معطل کر دیا۰ چیف جسٹس پاکستان نے اس معاملہ پر نوٹس تو ضرور لیا لیکن معاملہ کسی نتیجے تک نہ پہنچ سکا۰
سانحہ ساہیوال کو کون بھلا سکتا ہے جس میں ایک بے گناہ خاندان کو دہشت گردوں کے شبہ میں سیکیورٹی فورسز نے گولیوں سےبھون دیا تھا اور سانحہ میں بچ جانے والے تین معصوم بچوں کو ایک پٹرول پمپ پر چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے۰ بعد میں معلوم ہوا کہ مارے جانے والے دہشت گرد نہیں بلکہ بے گناہ لوگ تھے جو اپنے کسی عزیز کی شادی میں شرکت کے لئے جا رہے تھے۰ حکومتی وزیروں نے اس واقعے کے بعد لمبی چوڑی تقریریں کیں، جان اللہ کو دینے کے دعوے کئے، وزیراعظم نے بھی فرمایا کہ قطر کےدورے سے واپس آتے ہی واقعے کے ذمہ داروں کو کیفرِ کردار تک پہنچا دوں گا۰ اس واقعے کا نتیجہ بھی یہ نکلا ہے کہ واقعہ میں ملوث تمام اہلکار باعزت بری ہو کر اپنی نوکریوں پر بحال ہو چکے ہیں۰
واقعات کا تو ایک تسلسل ہے کہ لکھتے جاؤ لیکن واقعات ختم ہونے میں نہیں آتے۰ چند روز پہلے لاہور میں سیالکوٹ موٹروے لنک روڈ پر فرانس سے آنے والی خاتون کی گاڑی میں پٹرول ختم ہو جانے کے بعد پولیس کو مدد کے لئے کی جانے والی کال کے بعد پولیس کی بجائے دو نامعلوم افراد کی آمد اور بچوں کے سامنے کی جانے والی عصمت دری کے واقعہ نے پوری قوم کو انتہائی رنج و غم اورغصے کی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۰ یہاں بھی ہوا یہی ہے کہ ریاست اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۰ پولیس کو مدد کےلئے کال کی گئی تو موٹروے پولیس اور دوسری پولیس حدود کا تعین کرنے میں مصروف رہیں لیکن اس دوران ایک عزت دار خاتون اپنی عزت جیسی متاع عزیز لٹا بیٹھی۰ سونے پہ سہاگہ کا کام لاہور کے پولیس چیف کے بیان نے کیا کہ خاتون اس موٹر وے پر گئی ہی کیوں، اس نے پٹرول چیک کیوں نہیں کیا وغیرہ وغیرہ۰ تین چار روز گزر جانے کے باوجود پولیس اور حکومت اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے علاوہ اور لاہور پولیس چیف کے غیر ذمہ دارانہ بیان کی حمایت کے علاوہ مظلوم خاتون کی داد رسی کے لئےکچھ بھی کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۰ مظلوم خاتون سے زیادتی کے مجرم گرفتار بھی ہو جائیں ان کو سخت ترین سزا مل بھی جائےتو کیا اس مظلوم خاتون اور اس کےمعصوم بچوں کے کرب اور اذیت کا مداوا ہو سکتا ہے؟ ان کے ذہنوں سے اس المناک واقعہ کی یاد مٹائی جا سکتی ہے؟
لاہور کا پولیس چیف شائد ٹھیک ہی کہتا ہے کہ قصور اس خاتون کا ہی ہے جس نے درندوں کی اس ریاست کو مدینہ کی ریاست سمجھ لیا۰ اسے کیا معلوم تھا کہ یہ خلفائے راشدین کی ریاست مدینہ نہیں ہے جہاں کہا جاتا تھا کہ اگر فرات کے کنارے کتا بھی بھوکا مر گیا تو اس کا حساب خلیفہ کو دینا پڑے گا یہاں تو کہا جاتا ہے کہ کتا فرات کے کنارے گیا ہی کیوں؟ یہ خاتون سمجھ بیٹھی کہ ریاست مدینہ تو اسلام کا قلعہ ہے جہاں عشق رسول میں سر تن سے جدا کرنے والے لوگ رہتے ہیں اسے کیا معلوم تھا کہ ان عُشاق نے کبھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر خود عمل کر کے نہیں دیکھا۰
لاہور کے اس واقعے کے علاوہ بھی دو تین روز میں کوئی دس کے قریب واقعات خواتین اور بچوں سے زیادتی کے منظر عام پر آچُکےہیں۰ ایسے واقعات اب روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں جن کا اب نوٹس بھی نہیں لیا جاتا۰ اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پہلے یہ مردہ معاشرہ تھا، اب یہ معاشرہ زانی بھی ہو گیا ہے۰
ریاست مدینہ بنانے کے دعویداروں کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۰ کیا ریاست مدینہ ایسی ہوتی ہے کہ جہاں بسنے والے عوام کی نہ جان و مال محفوظ ہوں اور نہ ماوں بہنوں کی عزت و آبرو۰ ریاست کے ارباب اقتدار کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ تقریباً آدھی مدت اقتدار گزر جانے کے باوجود ان کے پاس ہر مسئلہ اور ہر خرابی کی ذمہ داری پچھلی حکومتوں پر ڈالنے کے علاوہ نہ کوئی دلیل ہے اورنہ کریڈٹ پر کوئی کام۰ ریاست مدینہ بنا کر دینے والوں کے دورِ حکومت میں ریاست مدینہ تو دور کی بات یہ ملک ریاست بھی کہلانےکے قابل نہیں رہا ہے۰ کہا جاتا ہے کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے۰ ظالمو ہمیں ماں جیسی ریاست بیشک نہ دو لیکن ڈائن جیسی بھی نہ دو۰
Twitter: @GorayaAftab
Date: 15-09-2020