کرونا چیلنج !!
کرونا چیلنج !!
تحریر: آفتاب احمد گورائیہ
چائینہ میں کرونا کا آغاز جنوری کے پہلے ہفتے میں ھوا جو آھستہ آھستہ پھیلتا ھوا اس وقت دنیا کے تقریبا" 185 ملکوں میں پھیل چکا ھے. چائینہ نے حیرت انگیز طور پر نہایت تیز رفتاری سے اپنی حکمت عملی بنائی اور کرونا پر قابو پا لیا. اب ووہان میں کرونا کا آخری ہسپتال بھی بند ھو چکا ھے اور اس وقت چائینہ باقی دنیا کو کرونا سے مقابلے کے لئے نہ صرف ماسک اور دوسری ضروری اشیا دے رھا ھے بلکہ اس کے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف دوسرے ملکوں میں جا کر وہاں کے ڈاکٹروں کو کرونا سے مقابلے کی تربیت دے رھے ہیں.
جنوری کے پہلے ہفتے سے لے کر مارچ کے شروع تک پاکستان میں کرونا کے پہنچنے تک تقریبا" دو مہینے کا وقت تھا. اس وقت سوال یہ ھے کہ پاکستان کی حکومت نے اس دوران کرونا سے بچاو کے لئے کیا اقدامات کئے؟
کہا جا رھا کہ پاکستان میں کرونا کا آغاز تفتان بارڈر کے ذریعے ایران سے آنے والے زائرین کے ذریعے ھوا جو کہ کسی حد تک درست بھی ھے. یہ وفاقی حکومت کی بڑی اہم ذمہ داری تھی کہ تفتان بارڈر پر قرنطینہ کی مناسب سہولت فراہم کی جاتی اور وہیں پر کرونا کے مریضوں کی سکریننگ کی جاتی لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ھے کہ وفاقی حکومت اپنی اِس ذمہ داری کو پورا کرنے میں بُری طرح ناکام رھی. تمام زائرین کو قرنطینہ کے نام پر اکٹھا ہی بند کر دیا گیا جِس کا نتیجہ یہ نِکلا کہ جو صحت مند لوگ تھے وہ بھی کرونا کا شِکار ھو گئے اور کرونا کے پھیلاو کا باعث بن گئے.
وفاقی حکومت کی دوسری بڑی نااہلی ائرپورٹس کو وقت پر نہ بند کرنا ھے. نہ صرف ائرپورٹس کو بند نہیں کیا گیا بلکہ کافی دیر تک ائرپورٹس پر سکریننگ کی بھی کوئی سہولت میسر نہیں تھی. اِس موقع پر سندھ حکومت نے وفاقی حکومت سے مایوس ہو کر کراچی ائرپورٹ پر اپنی مدد آپ کے تحت سکریننگ کا بندوبست کر دیا جبکہ مُلک کے باقی ائرپورٹس کافی دیر تک بغیر کِسی سکریننگ اور حفاظتی اقدامات کے آپریٹ کرتے رھے. حکومت کی یہ مجرمانہ غفلت بھی پاکستان میں کرونا کے پھیلاو کا ایک باعث بنی.
پاکستان میں کرونا پہلے پہل سندھ میں ظاہر ھوا جِس کے مقابلے کے لئے سندھ حکومت نے غیرمعمولی مستعدی کا مظاہرہ کرتے ھوئے اقدامات شروع کر دئیے. جن میں قرنطینہ سنٹرز کا قیام، تعلیمی اداروں کو بند کرنا، لاک ڈاون، کرونا فنڈ کا قیام، عوام کو راشن کی فراہمی تمام ایسے اقدامات ہیں جن سے کرونا کے پھیلاو کو روکنے میں مدد ملی ھے اور روزانہ کی بنیاد پر نئے مریضوں کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ھے. سندھ.حکومت کے اِن اقدامات کی WHO سمیت دوسرے بین الااقوامی اداروں اور پیپلزپارٹی کے بدترین ناقدین نے بھی تعریف کی ھے. پیپلزپارٹی کے ان اقداماے کو بعد میں دوسرے صوبوں نے بھی اپنایا.
دوسری طرف اِس تمام عرصے میں وفاقی حکومت اور اس کے گماشتے سندھ حکومت کے کئے جانے والے اقدامات پر نہ صرف تنقید کرتے رھے بلکہ جہاں تک ممکن ھو سکا رکاوٹیں بھی ڈالتے رھے.
وفاقی حکومت کے دیر کر دینے اور بے دِلی سے کئے جانے والے اقدامات کا نتیجہ یہ نِکلا ھے کہ پنجاب اور KPK میں کرونا کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ھو رھا ھے جبکہ سندھ میں روزانہ بنیاد پر نئے مریضوں کی تعداد میں اضافہ میں نمایاں کمی ھوئی ھے.
اس وقت جب کہ پنجاب اور KPK میں کرونا کے مریضوں کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ھو رھا ھے، وفاقی حکومت اب بھی گُو مگو کی کیفیت میں مبتلا ھے نہ تو کرونا کا مقابلہ کرنے کے لئے ہسپتالوں میں مناسب سہولیات ہیں اور نہ ہی ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل سٹاف کے پاس اپنے بچاو کا سامان موجود ھے. یہی وجہ ھے کہ میو ہسپتال لاھور میں کرونا کے مریض کو بیڈ کے ساتھ باندھے جانے اور پھر ہلاکت کا دلخراش واقعہ سامنے آیا ھے. جِس پر میڈیا سمیت تمام حکومتی عہدیداروں کی خاموشی بے حسی کی زندہ مثال ھے. یہاں فواد چوہدری کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ھو گا جِس نے وزیر ھونے کے باوجود اس ہلاکت کو قتل قرار دیا ھے.
پنجاب حکومت کی طرف سے رائیونڈ اجتماع کی اجازت دینا ایک اور فاش غلط ثابت ھوئی جِس نے کرونا کے پھیلاو میں اپنا حصہ ڈالا ھے.
ایمرجنسی اور آفات کے دور میں حکومتیں پوری قوم کو یکجا کرنے کی کوششیں کرتی ہیں تاکہ قوم کا مورال بلند رھے. پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں وزیراعظم کی توجہ اِس اہم ذمہ داری کی طرف مبذول بھی کروائی اور کہا کے آگے بڑھو اور قیادت کرو ہم تمہارا ساتھ دیں گے لیکن اِس کا جواب وزیراعظم نے صوبہ سندھ کو مکمل طور پر ہر تقریر اور پریس کانفرنس میں نظرانداز کر کے دیا. پارلیمانی لیڈرز کی میٹنگ میں بھی وزیراعظم اپنی تقریر کر کے چلتے بنے اور بلاول بھٹو اور شہباز شریف کو سننا بھی گوارا نہیں کیا. نتیجتا" انہوں نے بھی پارلیمانی لیڈرز کی میٹنگ کا بائکاٹ کر دیا اور یوں وزیراعظم نے قومی یکجہتی پیدا کرنے کا سنہری موقع بھی ضائع کر دیا.
ملکی معیشت کو مکمل تباہی سے بچانے اور عوام کی زندگیوں کے تحفظ کی خاطر وزیراعظم کو نیم دِلی کی کیفیت سے نِکلنا ھو گا. سخت فیصلے کرنے ھونگے، مکمل لاک ڈاون کرنا ھو گا تاکہ دو تین ہفتوں میں صورتحال بہتر ھو سکے ورنہ نیم دِلی سے فیصلے کرنے کا نتیجہ یہ نِکلے گا کہ نہ تو کرونا پر قابو پایا جا سکے گا اور نہ ہی معیشت بچائی جا سکے گی. آدھا تیتر آدھا بٹیر سے کام نہیں چلے گا.
یاد رکھیں اگر لیڈرشپ بروقت فیصلے نہ کر سکے تو ملک و قوم کو اِس کا نقصان بہت عرصہ تک اٹھانا پڑتا ھے.
Twitter: @GorayaAftab
Date: 29-03-2020