“چانس” چاچو
“چانس” چاچو
تحریر: آفتاب احمد گورائیہ
ہمارے بڑے ہی عزیز دوست رانا ظفر صاحب جنہیں ہم عقیدت اور پیار سے چاچو بھی کہتے ہیں بڑی باغ و بہار شخصیت کےمالک ہیں۰ رانا صاحب مجھ سے عمر میں پانچ سات سال ہی بڑے ہوں گے لیکن ان کو چاچو کہنا ایک علیحدہ ہی انسیت کا احساس دلاتا ہے۰ رانا صاحب کا میرے مرحوم والد چوہدری مشتاق احمد گورائیہ صاحب سے بھی بڑا پیار والا تعلق تھا اس نسبت سے بھی رانا صاحب کو چاچو کہنا مجھے اچھا لگتا ہے۰
اب آتے ہیں کالم کے نام کی طرف “چانس چاچو”۰ جس طرح مجھے آج تک “اچانک بریانی” نامی ریسٹورنٹ کے نام کی پیچھے موجود وجہ کی سمجھ نہیں آ سکی کہ اس انوکھے نام کے پیچھے کیا لاجک ہو سکتی ہے اسی طرح چاچو کے نام کے ساتھ لگایا گیا “چانس” بھی ایک ایسا راز ہے جو صرف چند لوگوں کو معلوم ہے۰ اتنا بتا دوں کہ اس کو پڑھتے ہوئے لفظ “ن” پر زور دیں تو اس سے یہ“چانس” انگریزی والے چانس سے نکل کر پنجابی والا “چانس” بن جاتا ہے اور یہی اس نام کا اصل مزہ ہے۰ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ “چانس” ایک ایسا قومی راز ہے جس کا صیغہ راز میں رہنا قومی مفاد کے لئے ضروری ہے۰ قارئین کی دلچسپی کے لئےاتنا بتا دیتا ہوں کہ ہمارے چاچو نے زندگی میں کبھی کوئی “چانس” مس نہیں کیا اور یہی زندگی میں ان کی کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے۰ میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمارے چاچو کو زندگی میں اور زیادہ “چانس” ۔۔۔۔ میرا مطلب اور زیادہ کامیابیاں عطا فرمائے۰
“چانس” چاچو ایک اعلی تعلیم یافتہ شخص ہیں اور پاکستان کی ایک بڑی انشورنس کمپنی میں سنئیر وائس پریذیڈنٹ (انٹرنل آڈیٹر) جیسےمعتبر عہدے پر فائز ہیں۰ چاچو کا تعلق سرگودھا کے ایک گاوں سے ہے۰ اعلی تعلیم یافتہ اور ایک بڑے عہدے پر فائز ہونے کےباوجود چاچو کے اندر موجود دیہاتی ان کی موجودہ زندگی پر آج بھی مکمل طور پر حاوی ہے۰ چاچو کے ساتھ پیار کی ایک وجہ ان کا تصنع اور بناوٹ سے پاک ایک مکمل اٹکل دیہاتی ہونا بھی ہے۰ چاچو کو گاوں میں پیار سے سب بھولا کہتے تھے۰ چاچو گاوں میں فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے یہی وجہ تھی کہ گاوں کے لوگ اکثر چاچو کو دعا دیا کرتے تھے “بھولیا اللہ تیرا بھلا کرے”۰
چاچو کھانے پینے کے بھی شوقین ہیں اگر ان کے بغیر کوئی سپیشل پکی ہوئی چیز کھا لی جائے تو ایسی ایف آئی آر درج کرتے ہیں جس میں اس وقت تک ضمانت نہیں ہوتی جب تک وہی چیز ان کو بھی نہ کھلا دی جائے۰ چاچو کھانے کے ساتھ کھلانے کے بھی شوقین ہیں اس لئے چاچو سے اگر کچھ کھانے کی فرمائش کی جائے تو اسے پورا کرنے کے لئے بھی ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۰
پیسے ہمیشہ سامنے والی جیب میں رکھتے ہیں جہاں سے کوئی بھی قریبی دوست آسانی سے نکال کر کچھ بھی کھانے کے لئے منگوا لے پرواہ نہیں کرتے بس لکھ لیتے ہیں کہ اب اس سے بھی ضرور کچھ کھانا ہے۰ کئی دفعہ منع بھی کیا ہے لیکن پیسے سامنے والی جیب میں ہی رکھیں گے۰ اگر کسی کی بات مان لیں تو ان کو رانا کون کہے۰
ویسے تو راجپوت خاندان کے چشم و چراغ ہیں لیکن طبیعت کے اعتبار سے “باریک” ہیں اور اس کی وجہ ان کو سردی بہت زیادہ لگنا ہے۰ اس لئے ستمبر اکتوبر میں ہی رضائیاں نکال لیتے ہیں اور یہ بات مجھے تاریخ کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرنے سے معلوم ہوئی ہے۰ سخت سردی کے موسم میں اکثر پنجابی میں یہ کہتے پائے جاتے ہیں “اوئے میں کوئی نہیں جے رانا”۰
ہنسی مذاق اپنی جگہ لیکن چاچو ایک نہایت ہمدرد اور روایت پسند انسان بھی ہیں اور اس کا اندازہ مجھے ایک دو مواقع پر ہوا جس کا تذکرہ کرنا نہایت ضروری ہے۰ چچا جان سلیم اللہ طاہر صاحب کی وفات کے کچھ روز بعد میں پاکستان پہنچا تو ایک دن پروگرام بنا کہ باہر کچھ کھانے کے لئے چلتے ہیں لیکن چچا جان سلیم اللہ صاحب کے صاحبزادے مبشر سلیم نے گھر میں بڑی مزیدار مٹن کڑاہی کی دعوت دی تو لاکھ مجبور کرنے کے باوجود ہم چاچو کو ان کے گھر مٹن کڑاہی کھانے پر آمادہ نہ کر سکے کیونکہ ان کا موقف تھا کہ ابھی چند روز ہوئے ہیں ان کے والد صاحب کی وفات ہوئے اس لئے ان کے گھر سے کھانا بالکل مناسب نہیں ہے۰
دوسری دفعہ میرے والد صاحب کی وفات کے موقع پر جب مجھ سے ملے تو ان کی آنکھوں سے زار و قطار برستے آنسو میں زندگی میں شائد کبھی نہ بھلا نہ سکوں۰ چاچو کا یہ والا روپ ایک نہایت ہمدرد اور درد دل رکھنے والے انسان کا روپ تھا۰
اللہ تعالی رانا ظفر صاحب ہمارے “چانس چاچو” کو ہمیشہ خوش و خرم رکھے، صحت و تندرستی والی لمبی زندگی عطا فرمائے اور ہمہمیشہ ان کی زندہ دل صحبت سے اسی طرح مستفید ہوتے رہیں آمین۰
Twitter: @GorayaAftab
Dated: 31-08-2020