لاہور لاہور اے
لاہور لاہور اے
تحریر: آفتاب احمد گورائیہ
پاکستان میں کرونا کی وجہ سے ملنے والی والی خبروں نے طبیعت کو کافی بوجھل اور اداس کر رکھا ہے۰ اس لئے سوچا کہ آج سیاست سے ہٹ کر کسی موضوع پر لکھا جائے تو خیال آیا کیوں نہ لاہور شہر کے بارے لکھا جائے۰ لاہور ہمیشہ سے تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہا ہے۰ تاریخی طور پر بھی اگر دیکھا جائے تو لاہور ایک وسیع موضوع ہے جس پر بہت زیادہ لکھا جا سکتا ہے۰ اس لئے کوشش کروں گا کہ گاھے بگاھے سیاسی موضوعات سے وقت بچا کر لاھور پر کچھ نہ کچھ لکھتا رہوں۰
لاہور دریائے راوی کے کنارے ٹیلے پر آباد ایک تاریخی شہر ہے۔ یہ ٹیلہ جس پر لاہور آباد ہے پرانے شہر کا ملبہ ہی ہے کیونکہ لاہور کئی دفعہ بیرونی حملہ آوروں کے ہاتھوں تباہ ہوا۔ آخری دفعہ کوئی تقریباً ایک ہزار سال پہلے محمود غزنوی کے گورنر ایاز نے لاہور کی تعمیر کی۰ لاہور کے گرد فصیل تعمیر کی گئی اور فصیل کے اردگرد خندق بنائی گئی جس میں دریا کا پانی بہتا تھا۰ لاہور چونکہ بیرونی حملہ آوروں کے راستے میں آتا تھا اس لئے بیرونی حملہ آور دلی جاتے ہوئے لاہور میں پڑاؤ کرتے، آرام کرتے، زاد راہ لیتے اور دلی کی طرف نکل جاتے۰ بہت سے حملہ آور لاہور سے ہی مار کھا کر واپس لوٹ جاتے لیکن جو لاہور پر قبضہ کر لیتا اس کو پھر دلی نہ روک پاتا۰ شیر شاہ سوری نے اپنے زمانے میں لاہور کو کافی تباہ و برباد کیا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ لاہور جیسا امیر شہر حملہ آوروں کے راستے میں نہیں ہونا چاہیئے۰
مغلیہ دور میں بھی لاہور کی اہمیت برقرار رہی اور کئی مغل بادشاہ لاہور میں قیام پذیر بھی رہے۰ شہنشاہ اکبر کو تو لاہور اتنا پسند تھا کہ وہ چودہ برس یہاں مقیم رہا۰ شہنشاہ جہانگیر کا مقبرہ بھی لاہور میں ہی ہے۰ شہنشاہ اکبر کے دور میں شہر کی فصیل پکی اینٹوں سے دوبارہ تعمیر کی گئی اور بارہ دروازے بنائے گئے۔ ان دروازوں میں ایک اکبری دروازہ اکبر بادشاہ کے نام پر ہی ہے۔
دروازوں کا ذکر کیا جائے تو شہر سے قلعے کو ملانے والا دروازہ مسجدی دروازہ کہلاتا تھا جو بعد میں بگڑتے بگڑتے مسیتی دروازہ اور پھر مستی دروازہ بن گیا۔ دوسرا دروازہ قلعے اور بعد میں بننے والی بادشاہی مسجد کے درمیان سے دریا میں اترنے والی سیڑھیوں کے شروع میں بنایا گیا۔ یہاں رات کو روشنی کی جاتی تھی اس لئے اس کا نام روشنائی دروازہ رکھا گیا۔ لاہور کی ٹکسال بڑی مشہورِ تھی اس لئے راوی روڈ کے شروع میں بننے والے دروازے کا نام ٹکسالی دروازہ رکھا گیا۔ اس سے تھوڑا آگے داتا دربار کی طرف جائیں تو بھاٹی دروازہ آ جاتا ہے جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہاں بھٹی قوم آباد تھی۰ اس سے آگے چلیں تو موری ہے جس کو دروازہ تو نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ شہر کا کوڑا کرکٹ باہر نکالنے کے لئے استعمال ہونے والا راستہ تھا۰ اس سے آگے آئیں تو لوہاری دروازہ آ جاتا ہے۰ یہاں شائد لوہار کام کرتے ہوں گے جس کی وجہ سے اس کانام لوہاری دروازہ پڑ گیا۰ آگے چلتے جائیں تو شاہ عالمی دروازہ آ جاتا ہے جس کا نام علم دوست بادشاہ شاہ عالم کے نام پر رکھا گیا۰ شاہ عالم آخری مغل بادشاہ تھا جو لاہور آیا اس کے بعد کسی مغل بادشاہ کو لاہور آنے کا موقع نہ ملا۰ چلتے جائیں تو موچی دروازہ آتا ہے اسکے بعد اکبری دروازہ اور پھر دلی دروازہ اور یکی دروازہ۰ یکی دروازے کو خزری دروازہ بھی کہا جاتا تھا۰ سرکلر روڈ کی طرف مڑیں تو شیراں والا دروازہ آتا ہے جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہاں شیر رکھے جاتے تھے۰
لاہور شہر ایک وجہ شہرت اس کے بارہ دروازے بھی ہیں لیکن ان دروازوں میں سے بیشتر دروازے اب موجود نہیں ان کا صرف نام ہی باقی ہے۰
Twitter: @GorayaAftab
Date: 20-06-2020