شوگر لیکس
شوگر لیکس
تحریر: آفتاب احمد گورائیہ
ہفتہ رواں کے دوران چینی کے بحران پر ایف آئی اے کی انکوائری رپورٹ کا خوب چرچا رہا ہے جس میں جہانگیر ترین، خسرو بختیار، مونس الہی جیسے حکومتی لوگوں کے نام سامنے آئے. پنجاب کے وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری نے رپورٹ میں نام آنے پر استعفی بھی دے دیا ہے. وفاقی حکومت نے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہوئے جہانگیر ترین کو زرعی ٹاسک فورس کے چیرمین کے عہدے سے ہٹا دیا ہے جو مبینہ طور پر ایک ایسی تقرری ہے جس کا کوئی نوٹیفکیشن ہی موجود نہیں یا اگر یہ تقرری زبانی کلامی ہی تھی تو بھی یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ سپریم کورٹ سے نااہل شخص کو زرعی ٹاسک فورس کا چیرمین لگایا ہی کیوں گیا تھا؟ جہاں تک باقی لوگوں کا تعلق ہے تو خسرو بختیار سے فوڈ سیکیورٹی جیسی غیر اہم وزارت واپس لے کر اقتصادی منصوبہ بندی جیسی اہم وزارت کا چارج دے دیا گیا ہے یعنی پروموشن کر دی گئی ہے۰
انکوائری رپورٹ میں اعلی حکومتی عہدیداروں کے نام سامنے آنے پر بجائے شرمندہ ہونے کے وزیراعظم اور ان کے حمایتی اس بات کا کریڈٹ لیتے نظر آئے کہ دیکھیں تاریح میں پہلی مرتبہ حکومت انکوائری رپورٹ کو عوام کے سامنے لے کر آئی ہے. جہاں تک حکومت کے رپورٹ ریلیز کرنے کے دعوی اور کریڈٹ کا تعلق ہے حکومت کے اِس ڈھول کا پول وزیراعظم کے اپنے ہی ترجمان ندیم افضل چن ایک ٹی وی چینل پر کھول چکے ہیں کہ حکومت نے رپورٹ ریلیز نہیں کی بلکہ رپورٹ لیک ہوئی ہے لیکن اِس ڈھٹائی کا کیا کیا جائے کہ حکومت بجائے چینی کے سکینڈل میں ملوث ہونے پر شرمندہ ہونے کے مسلسل رپورٹ کو منظرعام پر لانے کا کریڈٹ لینے میں مصروف ہے.
سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا یہ معاملہ اتنا ہی سیدھا ہے کہ تین ارب کی سبسڈی (امدادی قیمت) تک محدود ہے یا اس کے پیچھے کوئی لمبا ہاتھ مارا گیا ہے؟ سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ کیا چالیس پچاس کروڑ جیسی معمولی رقم کی خاطر ارب پتی جہانگیر ترین اور خسرو بختیار جیسے لوگ اپنی سیاسی ساکھ کو داو پر لگا سکتے ہیں؟
پاکستان میں موجود دوسرے مافیاز کی طرح شوگر مافیا بھی شوگر انڈسٹری کے ڈیمانڈ اور سپلائی جیسے معاملات کو مکمل طور پر کنٹرول کرتا ہے. کوئی سال بھر پہلے شوگر انڈسٹری کے اِسی مافیا نے حکومت پر دباو بڑھانا شروع کیا کہ شوگر ملوں نے ملک میں چینی کی ڈیمانڈ سے زیادہ چینی کی پیداوار کر لی ہے لہذا شوگر مِلوں کو چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دی جائے. اُس وقت انٹرنیشنل مارکیٹ میں چینی کی قیمت بہت کم تھی بلکہ ہماری شوگر مِلوں کی پیداواری لاگت سے بھی کم تھی اِس لئے دوسرا مطالبہ یہ بھی تھا کہ چینی کی ایکسپورٹ پرائس اور پیداواری لاگت میں جو فرق ہے حکومت اِس فرق کو سبسڈی (امدادی قیمت) کی شکل میں شوگر مِلوں کو واپس کرے ورنہ شوگر ِملیں اپنی پروڈکشن بند کر دیں گی اور کاشتکاروں سے گنا بھی نہیں خریدیں گی بلکہ سٹاک میں موجود چینی فروخت کر کے اپنی لاگت اور منافع پورا کریں گی. حکومتی سطح پر اِس کی لابنگ کے لئے جہانگیر ترین اور خسرو بختیار جیسے بااثر لوگ اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے رہے
حکومت نے اِس تمام صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے پہلے اِس معاملے کو شوگر ایڈوائزری بورڈ میں بھیجا جِس کے چیرمین رزاق داود ہیں. شوگر ایڈوائزری بورڈ کی سفارشات کا بعد میں اکنامک کوارڈینیشن کمیٹی (ای سی سی) نے جائزہ لیا اور حتمی سفارشات مرتب کیں جِن کے مطابق چینی کی ایکسپورٹ کی اِجازت دینے کی سفارش کی گئی. آخر میں یہ معاملہ وفاقی کابینہ میں پیش ہوا جہاں وفاقی کابینہ نے وزیراعظم کی صدارت میں چینی کی ایکسپورٹ کی اجازت دی لیکن سبسڈی (امدادی قیمت) کا فیصلہ صوبائی حکومتوں پر چھوڑ دیا کہ سبسڈی دینے یا نہ دینے کا فیصلہ صوبائی حکومتیں خود کریں. یہاں سے اصل گیم شروع ہوتی ہے کہ سوائے پنجاب حکومت کے کوئی بھی صوبائی حکومت سبسڈی دینے کا فیصلہ نہیں کرتی.
پنجاب جہاں شوگر سکینڈل کے مرکزی کرداروں خسرو بختیار اور مخدوم شہریار کے سگے بھائی ہاشم جہاں بخت وزیر خزانہ ہیں شوگر مِلوں کو سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا جاتا ہے جِس کے نتیجے میں جہانگیر ترین کی شوگر مِلوں کو چھیالیس کروڑ، جہانگیر ترین کے ماموں شمیم خان کو پچاس کروڑ اور مخدوم شہریار اور مونس الہی کی شوگر مِلوں کو چالیس کروڑ کی سبسڈی قومی خزانے سے دے دی گئی. بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اصل کہانی شروع یہاں سے ہوتی ہے کہ چینی ایکسپورٹ کر دینے کے نتیجے میں ملک میں چینی کی قلت پیدا ہو جاتی ہے جِس کو اگر مصنوعی قلت کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا. چینی کی قیمت پچپن روپے کلو سے بڑھ کر پچھتر روپے کِلو تک چلی جاتی ہے اور اربوں روپیہ غریب عوام کی جیبوں سے نِکل کر شوگر مافیا کی جیبوں میں چلا جاتا ہے
حکومت کے ہی ایک اہم اتحادی اور وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید ایک اور ہی کہانی بیان کرتے ہیں کہ ایکسپورٹ کی جانے والی چینی زیادہ تر افغانستان بھیجی گئی اور طورخم بارڈر پر صِرف کاغذات اِدھر اُدھر کئے گئے اور حکومت سے سبسڈی لے لی گئی جبکہ چینی شوگر مافیا کی مِلوں کے گوداموں میں ہی پڑی رہی جِس کو بعد میں مصنوعی قلت کے نتیجے میں چینی کی قیمت بڑھنے کے بعد فروخت کیا گیا اور عوام کی جیب پر اربوں کا ڈاکہ ڈالا گیا. بہرحال یہ شیخ رشید کی تھیوری ہے اور وہ حکومت کا حِصہ ہونے کی بنا پر اندر کی خبر بھی رکھتا ہوگا.
اِس ساری کہانی کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ اتنے بڑے سکینڈل میں ایک ایسی حکومت ملوث نظر آتی ہے جِس کا دعوی تھا کہ ہم حکومت میں آنے کے بعد نوے دن میں ملک سے کرپشن کا خاتمہ کر دیں گے لیکن آج حقیقت یہ ہے کہ اِس حکومت کا صادق اور امین وزیراعظم اپنے وزرا کی کرپشن میں ملوث ہونے کی رپورٹ پیش کرنے پر فخر محسوس کر رہا ہے.
Twitter: @GorayaAftab
Date: 10-04-2020