تبدیلی کا نوحہ
تبدیلی کا نوحہ
تحریر: آفتاب احمد گورائیہ
تبدیلی کے نام پر آنے والی تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار میں آئے تقریباً دو سال ہونے والے ہیں۰ کسی بھی حکومت کی کارکردگی کا اندازہ لگانے کے لئے دو سال کا عرصہ کافی سمجھا جاتا ہے۰ دو سال کے عرصے میں اگر چیزوں کو مکمل طور پر ٹھیک نہ بھی کیا جا سکے تو معاملات کو درست سمت دینے کے لئے اتنا وقت کافی ہوتا ہے۰ تحریک انصاف کی دو سالہ حکومتی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نظر نہیں آتا جس میں ذرا سی بھی بہتری نظر آئی ہو بلکہ معاملات پہلے سے بھی خراب تر ہو چکے ہیں اور ہر آنے والے دن کے ساتھ تمام شعبہ ہائے زندگی میں معاملات مزید ابتری کی طرف گامزن ہیں اور یہ خطرہ پیدا ہوچکا ہے کہ نالائق اور نااہل حکومت معاملات کو ایسی نہج پر نہ لے جائے جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو سکے۰
اگر موجودہ حکومت کی معاشی پالیسی، خارجہ پالیسی، گورننس، قانون سازی، کرپشن پر کںٹرول، مہنگائی پر کنٹرول، پولیس ریفارمز یا کسی بھی شعبہ یا معاملہ کا جائزہ لیا جائے تو ناکامیوں کی ایک مکمل داستان نظر آتی ہے۰
حال ہی میں اگلے مالی سال کے لئے بجٹ کی منظوری دی گئی ہے۰ بجٹ کی تفصیل میں جائے بغیر صرف فنانس بل میں فراہم کئے گئے معاشی اعشاریوں کو ہی اگر دیکھ لیا جائے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ معاملات کتنے گھمبیر ہو چکے ہیں۰ مشیر خزانہ کی طرف سے فراہم کئے گئے اعداد و شمار کو اگر بنیاد بنایا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے دور حکومت میں نامساعد حالات کے باوجود ملکی معیشت روبہ زوال نہیں تھی بلکہ موجودہ صورتحال سے کہیں بہتر حالات تھے۰ پیپلز پارٹی نے 2008 میں جب حکومت سنبھالی تو گروتھ ریٹ ایک فیصد سے بھی کم تھا جس کو پیپلز پارٹی کی حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ، دو بڑے سیلاب، سوات آپریشن کے مہاجرین کی بحالی، مخالف عدلیہ اور مخالف اسٹیبلشمنٹ کے باوجود پانچ سالوں بعد جب حکومت ختم ہوئی تو 4.4 فیصد تک بڑھا چکی تھی جسے بعد میں ن لیگ کی حکومت نے اگلے پانچ سالوں میں مزید اوپر لے جاتے ہوئے 5.8 فیصد تک پہنچا دیا۰ یہاں سے آگے تحریک انصاف کی حکومت شروع ہوتی ہے اور تباہی کی داستان بھی۰ پچھلے سال جون میں اپنے دور حکومت کے پہلے سال کے اختتام پر ہی تحریک انصاف کی حکومت معیشت کو نوز ڈائیو لگوا چکی تھی جب پہلے سال ہی گروتھ ریٹ 5.8 فیصد سے گرتے ہوئے 1.9 فیصد پر آ گیا جبکہ دوسرے سال کے اختتام پر یعنی اس سال جون میں گروتھ ریٹ منفی 0.4 فیصد ہو چکا ہے۰ قرضوں کی صورتحال دیکھیں تو صرف دو سال کے عرصے میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ادوار سے زیادہ قرضہ لیا جا چکا ہے۰ مہنگائی کا جن بے قابو ہو چکا ہے۰ ڈالر 170 کی بلند ترین سطح کو چھو رہا ہے۰ صنعت کا پہیہ رک چکا ہے۰ حکومت کے اپنے چہیتے وزیر شیخ رشید کا بیان آن ریکارڈ ہے کہ کرونا ہماری حکومت کے لئے نعمت ثابت ہوا ہے جسکی وجہ سے قرضوں کی قسطیں نہیں دینا پڑیں گی ورنہ تو ہم ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار تھے۰
خارجہ پالیسی کو اگر دیکھیں تو پچھلے سال بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کر کے اسے بھارت کا حصہ بنا لیا اور ہم اس پر چوں بھی نہ کر سکے اور نہ ہی ہم دنیا کو اپنا نقطہ نظر سمجھا سکے۰ ہاں زبانی جمع خرچ کے طور پر اقوام متحدہ کے اجلاس میں کی گئی ایک تقریر کی خوب داد وصول کی گئی جبکہ سوائے ترکی اور ملائشیا کے کسی ایک اسلامی ملک کی بھی حمایت حاصل نہ کی جا سکی۰
گورننس کے معاملات کو اگر دیکھیں تو بیوروکریسی مکمل طور پر حکومت کے کنٹرول سے باہر ہے۰ جس طرح افسران کو نیب کے ذریعے ہراساں کیا گیا ہے اس سے بیوروکریسی کوبہت غلط میسج گیا ہے۰ اب خبریں آ رہی ہیں کہ وزیراعظم کے احکامات پر عمل نہیں ہوتا۰ بیوروکریسی کے منہ زور گھوڑے کو جس طرح سے بدکا دیا گیا ہے اب اس کا خمیازہ بھی حکومت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۰ پولیس ریفارمز بھی تحریک انصاف کا وعدہ تھا جس پر پہلے دن ہی یو ٹرن لے لیا گیا۰
کرپشن کنٹرول کرنے اور کرپشن فری حکومت کے دعویدار حکمرانوں کے میگا کرپشن سکینڈلز مختلف عدالتوں میں سٹے آرڈرز کے پیچھے چھپنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۰ ان میگا کرپشن سکینڈلز میں پشاور میٹرو کیس، مالم جبہ ریزارٹ کیس، فارن فنڈنگ کیس، ادویات سکینڈل، شوگر آٹا سکینڈل، آئی پی پیز اور حالیہ پٹرول سکینڈل عمران خان کی صداقت اور امانت پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہیں۰ ایک سکینڈل کی بازگشت ابھی ختم نہیں ہوتی کہ ایک اور نیا کرپشن سکینڈل سامنے آ جاتا ہے۰
موجودہ دور حکومت میں آڈیٹر جنرل کی پہلی آڈٹ رپورٹ کے مطابق پچھلے دو سال میں چالیس وزارتوں اور ڈویژنوں میں 270 ارب روپے کی کرپشن سامنے آئی ہے۰ یاد رہے ان میں سے بیشتر وزارتوں کا قلمدان ڈائریکٹ وزیراعظم کے پاس ہے۰ ہر خرابی کا ذمہ دار پچھلی حکومتوں کو ٹھہرانے والے عمران خان کے لئے یہ رپورٹ یقیناً لمحہ فکریہ ہونی چائیے۰
تحریک انصاف اپنے دور حکومت کے پہلے دو سالوں میں ہی اپنے انتخابی وعدوں کو یا تو مکمل پس پشت ڈال چکی ہے یا ان کی تکمیل میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۰ ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر صرف انتخابی تقریروں تک ہی محدود رہے۰
پہلے دو سالوں کی مسلسل ناکامیوں کے باعث حکومتی ممبران اور اتحادیوں میں بھی بے چینی کے اثرات واضع نظر آنے لگے ہیں اور یہ تاثر گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ موجودہ حکمران ملک چلانے کی نہ تو اہلیت رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کو درپیش مسائل کا صحیح ادراک ہے اس لئے اس حکومت کا مزید ساتھ دینا نہ صرف ملک کے لئے بہتر نہیں ہو گا بلکہ آئندہ کے لئے ان کا عوام میں جانا بھی مشکل ہو جائے گا۰
Twitter: @GorayaAftab
Date: 04-07-2020