ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بُلبل تھا کوئی اُداس بیٹھا
کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی
اُڑنے چُگنے میں دن گزارا
پہنچوں کِس طرح آشیاں تک
ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا
سُن کر بُلبل کی آہ و زاری
جُگنو کوئی پاس ہی سے بولا
حاضر ہُوں مدد کو جان و دل سے
کِیڑا ہوں اگرچہ مَیں ذرا سا
کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری
مَیں راہ میں روشنی کروں گا
اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل
چمکا کے مجھے دِیا بنایا
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے
آتے ہیں جو کام دوسرں کے
ہمدردی
(ماخوذ از ولیم کو پر)
بچوں کے لیے
حضرت علامہ اقبال رحمت اللہ علیہ
کویی اللہ سے بھی زیادہ بڑا ہو سکتا ہے
کویی اللہ سے بھی زیادہ قریب ہو سکتا ہے
کویی اللہ سے بھی زیادہ دوست ہو سکتا ہے
جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے