پنجابی پگ اور سندھی اجرک
پنجابی پگ اور سندھی اجرک
تحریر: آفتاب احمد گورائیہ
پچھلے کچھ روز سے قومی ثقافت سے بے بہرہ کچھ حلقوں کی جانب سے چیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے اجرک والا ماسک استعمال کرنے پر اعتراض اٹھایا جا رہا ہے کہ اس سے صوبائی عصبیت کو فروغ ملے گا. ثقافت کسی بھی ملک اور قوم کے تہذیب و تمدن اور روایات کی آئینہ دار ہوتی ہے اس کا کسی بھی قسم کی عصبیت سے دور کا تعلق بھی نہیں ہوتا. کسی بھی علاقے کے مقامی رسم و رواج، لباس، رہن سہن، صحت مند عادات، فن و ہنر اور اجتماعی شعور مل کر اس علاقے کی ثقافت ترتیب دیتے ہیں. کسی بھی علاقے کی ثقافت کے ساتھ وہاں کے رہنے والوں کی محبت اور لگاؤ ایک قدرتی بات ہے اور اگر اس ثقافت کو کسی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جائے تو اس کا سخت ردعمل سامنے آنا بھی ایک فطری امر ہے.
علاقائی ثقافت کو اگر مجموعی ملکی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ اس ملک کی قومی ثقافت کا حصہ ہوتی ہے۔ اس لئے کسی علاقے یا صوبے کے ثقافتی ورثے پر اعتراض کرنا قومی ثقافت پر تنقید کے زمرے میں آتا ھے. ہمارے ہاں ہر چیز میں سیاست کو گھسیٹ لینا بہت عام سی بات ہے. سیاست کے لئے اور موضوعات یا ایشوز کیا کم ہیں کہ قومی ثقافت سے متعلقہ چیزوں کو بھی سیاست کا حصہ بنا لیا جائے.
پنجاب کی روایتی پگ جہاں پنجاب کے شرفا کا امتیازی نشان اور عزت و وقار کی علامت سمجھی جاتی ہے وہاں یہ پگ پنجابی ثقافت کا بھی ایک اہم جزو ہے. میں نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے میاں جی (دادا جان) چوہدری رحمت خاں گورائیہ کو ہمیشہ اونچے شملے والی سفید پگ استعمال کرتے دیکھا. میاں جی کی شخصیت پگ پہنے بہت بارعب اور پروقار معلوم ہوتی تھی. یہ والی پگ ایک خاص قسم کی ٹوپی جسے کلا کہا جاتا ہے اس پر ایک خاص قسم کے سفید ململ کے کپڑے جس پر مائع لگی ہوتی ہے اس کے ساتھ باندھی جاتی ہے. جن لوگوں کو نہیں معلوم ان کے علم میں اضافہ کے لئے بتا دوں کہ یہ اس طرح کی پگ ہوتی ہے جیسی آپ نے نواب آف کالاباغ کی تصویروں میں دیکھی ہو گی. ہمارے خاندان میں میاں جی کی زندگی تک یہ خوبصورت ثقافت موجود رہی. میاں جی کی وفات کے ساتھ ہی پگ پہننے کی خوبصورت روایت بھی ہمارے خاندان میں ختم ہو گئی کیونکہ ہم لوگ اب ماڈرن ہو چکے ہیں اور اس نام نہاد ماڈرن زندگی کے ساتھ چلتے چلتے اس طرح کی روایات بھی آہستہ آہستہ قصہ ماضی بنتی جا رہی ہیں. چیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے اجرک والے ماسک پر اعتراض کرنے والوں اور اسے صوبائی عصبیت قرار دینے والوں کی یاددہانی کے لئے بتا دوں کہ یہ وہی پگ ہے جس کے بارے میں "جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ" جیسا صوبائی عصبیت سے بھرپور نعرہ لگایا گیا تاکہ 1988 کے قومی اسمبلی کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی دو دن بعد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں پنجاب میں اکثریت حاصل نہ کر سکے. پاکستان پیپلز پارٹی کی پنجاب میں کامیابی سے پنجاب کی پگ کو تو کوئی داغ نہ لگ سکا لیکن اس نعرے سے ہماری سیاست کو جو داغ لگ گیا وہ آج اتنے سال گزرنے کے بعد بھی نہیں دھل سکا. اسی داغ کا نتیجہ ہے کہ آج صوبائی عصبیت اتنی گہری ہو گئی ہے کہ ایک دوسرے کی ثقافت بھی برداشت نہیں ہو پاتی اور کبھی سندھی ٹوپی تو کبھی اجرک کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے.
پاکستان کے تقریباً تمام علاقوں میں یہ روایت موجود ہے کہ اگر کسی کو عزت دینی ہو تو اسے اپنے ثقافتی ورثے کا تحفہ دیا جاتا ہے. اگر کسی سے معافی مانگنی ہو یا رنجش ختم کرنی ہو تو مخالف فریق کے قدموں میں اپنے عزت اور وقار کی سب سے بڑی علامت پگ رکھ دی جاتی ہے یا اجرک اوڑھائی جاتی ہے جس کے بعد مخالف فریق کے پاس رنجش ختم کرنے کے علاؤہ کوئی آپشن باقی نہیں رہتا. گھر آئے مہمان کے سر پر پگ رکھنا، اجرک اوڑھانا یا اپنے ثقافتی ورثے کا تحفہ دینا کسی بھی مہمان کے نزدیک سب سے بڑا تحفہ اور عزت کا مقام سمجھا جاتا ہے.
جس طرح پنجاب کی روایتی پگ، خیبرپختونخوا کی روایتی پگڑی، چترالی ٹوپی, پشاوری ٹوپی، بلوچستان کی روایتی پگڑی یا مقامی لباس اپنے اپنے صوبے یا علاقے کی ثقافت اور روایات کی نمائندگی کرتے ہیں اسی طرح سندھی ٹوپی اور اجرک بھی سندھ کی ثقافت کا نشان ہیں۔ اگر سندھ واسی اپنی ثقافت کو پروموٹ کرتے ہیں تو دوسرے بھی اپنی ثقافت کو پروموٹ کریں کس نے روکا ہے. جس طرح سندھ واسی سندھی ٹوپی اور اجرک کا دن مناتے ہیں دوسرے صوبے بھی اپنی ثقافت کے فروغ کے لئے اس طرح کے دن منائیں. اس سے کسی دوسرے صوبے یا علاقے کی ثقافت کو کوئی نقصان نہیں ہو گا بلکہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں موجود ثقافتی رنگوں سے ایک خوبصورت پاکستانی ثقافت تشکیل پائے گی.
ہمارے معاشرے میں جس تیزی سے عدم برداشت کا رویہ پروان چڑھ رہا ہے ثقافت جیسی خوبصورت چیز بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی اور اس کا منطقی نتیجہ ایک دوسرے کی ثقافت پر بے بنیاد اعتراضات کی صورت میں سامنے آ رہا ہے. جہاں ہم ہر چیز کو پہلے ہی متنازعہ بنا چکے ہیں وہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ ثقافت جیسی خوبصورت چیز کو متنازعہ ہونے سے بچایا جائے. ایک دوسرے کی رائے کا احترام تو ہم کب کا ترک کر چکے ہیں لیکن ایک دوسرے کی روایات کا احترام باقی رہنا چاہیے. جو قومیں اپنی ثقافت اور روایات سے ہٹ جاتی ہیں ان کی پہچان ختم ہو جاتی ہے. اس لئے کوشش کرنی چاہیے کہ چھوٹے چھوٹے سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر ایک دوسرے کی ثقافتی روایات کا احترام برقرار رکھا جائے تاکہ ہماری قومی ثقافت اور پہچان باقی رہ سکے.
Twitter: @GorayaAftab
Date: 25-07-2020