شکاگو اور ملتان کے مزدور شہدا کو سرخ سلام
شکاگو اور ملتان کے مزدور شہدا کو سرخ سلام
تحریر: آفتاب احمد گورائیہ
شروع زمانہ سے لے کر آج تک طاقتور طبقہ کمزور طبقے کا استحصال کرتا آیا ہے. وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ استحصال کے انداز بدلتے رہے لیکن نہ تو طاقتور طبقہ اپنی روش سے باز آیا اور نہ ہی کمزور کے دن کبھی بدل سکے. طاقتور اور کمزور کی یہ طبقاتی کشمکش سرمایہ دار اور مزدور کی صورت میں آج بھی دنیا کے بیشتر ممالک میں نمایاں نظر آتی ہے جہاں آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی محنت کش طبقے کا قدم قدم پر بدترین استحصال نظر آتا ہے.
آج سے ٹھیک 139 سال قبل 1886 میں شکاگو کے عظیم مزدور شہدا اور ان کے قائدین نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر ثابت کر دیا کہ مزدور اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے جان جیسی قیمت شے بھی قربان کر سکتا ہے لیکن اس کے باوجود مزدور کا استحصال آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے. اگر اس زمانے کی تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں امریکہ اور یورپ میں صنعت و تجارت کے تمام تر معاملات سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور حکومتوں کے نرغے میں تھے. مزدوروں سے پندرہ سے اٹھارہ گھنٹے کام لیا جاتا تھا اور اس کی اضافی اجرت بھی نہیں دی جاتی تھی. مزدور تنظیمیں اس ظلم و زیادتی کے خلاف عرصہ دراز سے آواز اٹھا رہی تھیں. اپریل 1886 میں امریکی لیبر فیڈریشن نے ایک قرارداد پاس کی کہ یکم مئی سے مزدوروں کے یومیہ اوقات کار آٹھ گھنٹے مقرر کئے جائیں گے. اس قرارداد کے حق میں امریکہ بھر کی مزدور تنظیموں نے جلسے جلوس نکالنے شروع کر دئیے. یکم مئی 1886 کو اس قرارداد کے حق میں شکاگو کے مزدوروں نے ایک عظیم الشان جلوس نکالا جس میں ایک اندازے کے مطابق کوئی چار لاکھ مزدور شریک تھے. اس تحریک کو کچلنے کے لئے خفیہ پولیس کے کارندوں نے جلوس کے اندر سے پولیس پر ایک دستی بم پھینک دیا جس کے جواب میں پولیس نے جلوس میں شریک مزدوروں پر اندھا دھند فائرنگ کر دی جس کی زد میں آ کر بے پناہ مزدور شہید ہوئے. بم پھینکے جانے کو بنیاد بنا کر حکومت نے آٹھ مزدور رہنماوں کو گرفتار کر لیا جن کو بعد ازاں پھانسی دے دی گئی. ان مزدوروں پر فائر کھولنے والے، سرمایہ دار، صنعتکار تاریخ کی دبیز تہہ تلے دب چکے لیکن شکاگو کے ان مزدور شہدا کو آج بھی دنیا بھر کے مزدور ہر سال یکم مئی کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں
شکاگو کے شہدا کا ذکر کریں تو پاکستان کے بدترین آمر جنرل ضیا کے دور میں جنوری 1978 میں کالونی ٹیکسٹائل مل ملتان میں ہونے والے مزدوروں کے قتل عام کا تذکرہ نہ کرنا ناانصافی ہو گا. دسمبر 1977 کے آخر میں کالونی ٹیکسٹائل مل کے مزدورں نے بونس کی عدم ادائیگی پر ہڑتال کر دی جس پر دو جنوری کو مل کی سی بی اے یونین پیپلز لیبر یونین کے نمائندوں کو انتظامیہ نے مذاکرات کے لئے بلایا. مذاکرات میں مل انتظامیہ، مارشل لا انتظامیہ، لیبر ڈیپارٹمنٹ اور یونین کے نمائندے شامل تھے. ابھی مذاکرات چل رھے تھے کہ مل میں جمع ہونے والے مزدوروں کو منتشر کرنے کے لئے پولیس نے لاٹھی چارج شروع کر دیا جب مزدور منتشر ہونے کی بجائے ڈٹ گئے تو پولیس نے فائر کھول دیا. سرکاری ذرائع کے مطابق شہید ہونے والے مزدوروں کی تعداد چودہ تھی جبکہ ورکرز یونین کے مطابق 133 مزدور شہید ہوئے. عینی شاہدین کے مطابق مل کا صحن لاشوں اور زخمیوں سے بھرا ہوا تھا جن کو انتظامیہ نے راتوں رات ٹرک میں ڈال کے مظفر گڑھ کے قریب اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا. اس واقعے کا ایک المناک پہلو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ان دفن ہونے والوں میں بہت سے زخمی بھی شامل تھے.
کالونی ٹیکسٹائل مل کے مالک شیخ مغیث کے جنرل ضیا کے ساتھ قریبی دوستانہ تعلقات کی بنا پر کسی بھی ذمہ دار کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہو سکی. جن پولیس والوں اور انتظامیہ کے افسران کو گرفتار کیا گیا ان کو بھی بعد میں چھوڑ دیا. یہ قتل عام خونی ضیا آمریت کی طرف سے پاکستانی محنت کشوں کو دی جانے والی وارننگ تھی کہ آمریت کے دور میں کسی قسم کے احتجاج اور ہڑتال وغیرہ کی اجازت نہیں دی جائے گی. اگر کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کا انجام کالونی ٹیکسٹائل مل کے شہدا سے مختلف نہیں ہو گا.
شکاگو کے شہدا کی قربانی کے نتیجے میں جہاں دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف مختلف تحریکوں نے جنم لیا جنہوں نے کئی ملکوں میں استحصالی نظام کو ہلا کر رکھ دیا. اس جدوجہد کے نتیجے میں بہت سے ممالک میں مزدور دشمن قوانین کا خاتمہ ہوا اور آجر اور اجیر کے درمیان قابل عمل تعلقات کی راہ ہموار ہوئی وہیں کالونی ٹیکسٹائل مل میں مزدوروں کے قتلُ عام کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں ٹریڈ یونینز پر پابندی لگا دی گئی اور پورے پاکستان کی طرح مزدوروں کے لئے بھی سیاہ رات مسلط کر دی گئی۰
Twitter: @GorayaAftab
Date: 01-05-2025