زراعت اور کسان کی زبوں حالی
زراعت اور کسان کی زبوں حالی
تحریر: آفتاب احمد گورائیہ
پاکستان کی تقریباً 64 فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے جن میں سے زیادہ تر کا ذریعہ معاش زراعت سے وابستہ ہے۰ پاکستان کا کل رقبہ 79.6 ملین ایکڑ ہے۰ جس میں سے تقریباً 23.7 ملین ایکڑ زرعی رقبہ ہے جو کل رقبے کا تقریباً 29 فیصد بنتا ہے۰ اس کے علاوہ ہماری تقریباً 45 فیصد آبادی کا ذریعہ معاش زراعت سے وابستہ ہے۰ پاکستان کی قومی پیداوار میں بھی زراعت کا حصہ تقریباً 24 فیصد کے قریب ہے جو دوسرے تمام سیکٹرز سے زیادہ ہے۰ پاکستان نہ صرف قدرتی وسائل سے مالا مال ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کا ماحول اورموسم بھی ہر قسم کی فصل کے لئے نہایت موزوں ہے۰ اس طرح پاکستان میں ہر قسم کی غذائی اشیاء کی پیداواری صلاحیت موجود ہے۔ان تمام اعداد و شمار اور ملکی معیشت کے زراعت پر انحصار کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ہمارا کسان دن بدن معاشی بدحالی کا شکار ہو رہا ہے جبکہ عالمی منڈیوں میں زرِ کثیر کمانے والی اجناس کپاس، گندم اور چاول کی پیداوار میں مسلسل کمی کا رحجان ایک لمحہ فکریہ ہے۰
زراعت پاکستان کی معیشت کے لئے ایک بنیادی جزو کی حیثیت رکھتی ہے۰ پاکستان میں پیدا ہونے والی اجناس کپاس، گندم، گنا،چاول اور مختلف قسم کے پھلوں کی پیداوار بیرونی منڈیوں میں خاص اہمیت رکھتی ہے اور پاکستان ان فصلوں کی بدولت قیمتی زرمبادلہ حاصل کرتا ہے۰ اس کے باوجود ہمارے شعبہ زراعت کی ترقی کی رفتار نہایت سست ہے۰ ہماری فی ایکڑ پیداوار بھی دنیا کے دوسرے ممالک کی نسبت بہت کم ہے جس کی بنیادی وجہ غیر معیاری بیج، ناقص زرعی ادویات، ملاوٹ شدہ کھاد اور ہمارےکسان کا جدید طریقہ ہائے کاشت سے نا آشنا ہونا ہے۰
اگر زرعی ترقی کو درپیش رکاوٹوں پر غور کیا جائے تو کئی وجوہات سامنے آتی ہیں۰ کھاد نہ صرف مہنگی ہے بلکہ ناقص بھی ہے جو نہ صرف فصل کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ زمین کے لئے بھی نقصان دہ ہے۰ جس کی وجہ سے فصلوں سے معیاری پیداوار حاصل نہیں ہو پاتی اور زمین کی زرخیزی بھی شدید متاثر ہوتی ہے۰ اس کے علاوہ زرعی ادویات کے نرخوں میں بے تحاشا اضافہ بھی کسانوں کی قوت خرید سے باہر ہے۰ ناقص کھاد اور غیر معیاری زرعی ادویات کے استعمال کی وجہ سے فی ایکڑ پیداوار میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۰ ڈیزل اور زرعی استعمال کی بجلی کے نرخ بھی آسمان سے باتیں کر رہے ہیں جس سے چاول کا کاشتکار خاص طور پر متاثر ہوا ہے۰ وسطی پنجاب جو چاول کی کاشت کے لئے مشہور تھا اس علاقے میں بھی چاول کی پیداواری لاگت میں بے پناہ اضافہ اورچاول کی قیمت خرید میں کمی کے باعث چاول کی پیداوار میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۰ پاکستان کا چاول دنیا بھر میں ایکسپورٹ کیا جاتا ہے لیکن اب چاول کا کاشتکار چاول کی بجائے باجرے اور دوسری اجناس کی کاشت کو ترجیح دینے لگا ہے جن کی یداواری لاگت بھی کم ہے اور قیمت بھی اچھی مل جاتی ہے لیکن اس سے چاول کی ایکسپورٹ کم ہونے کا اندیشہ ہے۰
اس جدید دور میں بھی پاکستان کا کسان فرسودہ اور پرانے طریقوں سے کاشتکاری کرنے پر مجبور ہے۔ زرعی آلات اتنے مہنگے ہیں کہ کسان کی استطاعت سے باہر ہیں۰ بلند ترین شرح سود پر دئیے جانے والے زرعی قرضےغریب کسان کا ایک اورسنگین مسئلہ ہے۰ کسان کو اس کی اجناس کی معقول قیمت نہیں ملتی کہ جس سے وہ اپنی پیداواری لاگت کو ہی پورا کر سکے جس کی وجہ سے غریب کسان مہنگائی اور قرضے کے بوجھ تلے دبتا چلا جاتا ہے۰ ایک زرعی ملک اور گندم کی پیداوار میں آٹھواں بڑا ملک ہونے کے باوجود کئی سالوں سے ہمیں گندم درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔ موجودہ حکومت کے ساتھ کسانوں کا سب سے بڑا شکوہ زرعی اجناس کے کم ریٹ کا رہا ہے۔ کسان بھائیوں کا کہنا ہے کہ کھاد، ڈیزل اور زرعی ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے فصل کی پیداواری لاگت میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے جبکہ فصل کی جو سرکاری قیمت مقرر کی جاتی ہے اس سے فصل کی پیداواری لاگت ہی پوری نہیں ہوتی جس کے نتیجے میں کسان بتدریج معاشی بدحالی کا شکار ہوتا چلا جا رہا ہے۔
گندم ایسی فصل ہے جس پر کسان کی ساری معیشت کا دارومدار ہوتا ہے لیکن پچھلے کئی برسوں سے گندم کا کاشتکار اپنی فصل نہایت کم قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور ہے۔ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ گندم کی قیمت کا اعلان گندم کی کاشت کے موقعہ پر کیا جاتا ہے تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ گندم کاشت کرنے کی طرف راغب ہوں لیکن کچھ سالوں سے گندم کی قیمت کا اعلان بھی کافی دیر سے کیا جاتا ہے۔ اس سال بھی گندم کی فصل تیار ہونے میں دو ماہ کا وقت رہ گیا ہے لیکن ابھی تک گندم کی قیمت کا اعلان ہی نہیں کیا گیا۔ پچھلے سال پنجاب حکومت نے گندم کی قیمت تین ہزار نو سو روپے فی من مقرر کی لیکن پنجاب حکومت نے کسان سے ایک دانہ گندم نہیں خریدی اور خریداری کا سارا بوجھ پاسکو پر ڈال دیا۔ پنجاب حکومت کے اس کسان دشمن رویہ کے باعث کسان اپنی گندم مڈل مین کو چھبیس سو یا ستائس سو روپے فی من بیچنے پر مجبور ہوا۔
کپاس جسے سفید سونا کہا جاتا تھا اس کا حال یہ ہے کہ ہر سال کپاس کی زیادہ تر فصل ناقص بیج اور ناقص زرعی ادویات کی وجہ سے خراب ہو رہی ہے، ہمارا شعبہ زراعت سفید مکھی اور تیلے کا ہی تدارک نہیں کر پا رہا۔ کسان قرض دار ہوتا جا رہا ہے جبکہ حکومت کو اس بات کی پرواہ ہی نہیں وہی پرانے ریٹ اور کسان کے لئے کسی ریلیف فنڈ یا سبسڈی کا تصور تک نہیں۰ یہی وجہ ہے کہ سونے جیسی کپاس کی فصل کی کاشت صرف تیس فیصد باقی رہ گئی ہے کیونکہ مسلسل نقصان کے باعث کسان دوسری فصلوں کی طرف راغب ہو رہا ہے۰ یہی حال اب گندم کی فصل کا ہے جب کسان کو فصل کی پیداواری لاگت ہی نہیں ملے گی تو خطرہ یہ ہے کہ کسان گندم کی کاشت بھی کم کر دے گا۔ شہروں میں سستی روٹی کے چکر میں پنجاب حکومت گندم کے کاشتکار کا جو استحصال کر رہی ہے اس سے گندم کا پیداواری ہدف حاصل کرنا مشکل تر ہوتا جائے گا کیونکہ اگر کسان کے گھر اناج نہیں رہے گا تو پھر دوسرے شہریوں کو اناج کہاں سے ملے گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ کسان کے مسائل کے حل کے لئے حکومتی سطح پر زرعی شعبہ کے لئے فنڈز میں اضافہ کیا جائے اورزرعی شعبے کے لئے خصوصی مراعات کا اعلان کیا جائے۰ زراعت کے لئے پانی کی فراہمی کو بہتر بنایا جائے، آبپاشی کے متبادل ذرائع تلاش کئے جائیں، زرعی استعمال کے لئے سولر سسٹم کی خریداری پر سبسڈی کا اعلان کیا جائے، زراعت کے جدید طریقوں سے استفادہ کیا جائے اور اس کے لئے زرعی ریسرچ کے محکموں کو فعال بنایا جائے۰ سب سے ضروری اور اہم بات یہ ہے کہ حکومت کسانوں سے مشاورت کے بعد ہر فصل کے پیداواری اخراجات کو مد نظر رکھتے ہوئے قیمتیں متعین کرے تاکہ کسان کو اس کی فصل کا مناسب معاوضہ مل سکے۰کسانوں کو بلا سود قرضے فراہم کئے جائیں اور چھوٹے کاشتکاروں کو مالی اامداد دی جائے۰ دوسرے ملکو ں کی طرح پاکستان میں بھی زرعی آلات پر ٹیکس ختم کیا جائے۰ غیر معیاری بیجوں اور ناقص زرعی ادویات کی سپلائی کو کنٹرول کیا جائے۰
نیشنل ایگریکلچر ریسرچ کونسل (NARC) پاکستان میں زرعی ریسرچ کا سب سے بڑا ادارہ ہے لیکن زرعی پیداوار میں مسلسل کمی اورفی ایکڑ پیداوار میں اضافہ نہ ہونا اس ادارے کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۰ اس ادارے کی اہمیت کے پیش نظر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس ادارے کی کارکردگی کا تفصیل سے جائزہ لے اور اس ادارے کو جدید خطوط پر منظم کرے تاکہ پاکستان کی زراعت کو بھی جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکے۰ اس کے ساتھ ساتھ اس ادارے سے وابستہ افراد کو ائیر کنڈیشنڈ کمروں سے نکال کر فیلڈ میں بھیجے تاکہ کسان کی مناسب رہنمائی کی جا سکے کہ کیسے جدید طریقوں سے فصلوں کو کاشت کر کے کم وسائل کے ساتھ زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۰
شعبہ زراعت کی اہمیت کے پیشِ نظر اگر حکومت زراعت کو اپنی ترجیحات میں شامل کرلے تو زراعت اور کسان کے گوناں گوں مسائل بآسانی حل ہو سکتے ہیں۰ اس سے نہ صرف زراعت کا شعبہ دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرے گا بلکہ کسان بھی خوشحال ہو گا اور ملکی ترقی پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۰ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے۰ اس کو اللہ تعالیٰ نے وافر افرادی قوت سے بھی نوازا ہے جو باصلاحیت اور ہنر مند بھی ہیں۰ ذرا سی حکومتی توجہ سے زراعت کے شعبے میں انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے اور زراعت کا یہ سبز انقلاب ہماری گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۰
میرے دیس کی دھرتی سونا اگلے، اگلے ہیرے موتی۰
Twitter: @GorayaAftab
Dated: 24-02-2025