حال احوال تک خدا جانے .... ہم جانے بھی تو کیا جانے
اے یار میرے، سن... اُسی کا شکار ہوگیا ہوں
ہر بار کا بچا ہؤا ، اب کے اِس بار ہوگیا ہوں
تھا اس قدر نمایاں، لوگوں کی گفتگو میں
اِک بار ہی ملا تھا، پھر خوار ہوگیا ہوں
پہلے سبھی تھے کہتے، بہت کام کا ہے بندہ
اب کیوں میں پوری طرح، بےکار ہوگیا ہوں
پہلے پہل تو خود کو بھی میسر نہ تھا کبھی
اب تو جیسے مفت میں ہی درکار ہوگیا ہوں
ویسے تو زمانے کے مقابل تھا کھڑا میں
یہ کیوں میں اپنی ذات سے دوچار ہوگیا ہوں
کچی سی اِک دیوار ہی گرائی گئی تھی تب
محسوس ہؤا کہ اندر سے مسمار ہوگیا ہوں
میرا اُسکا ہاتھ تھامے، سبزے پہ چلتے جانا
تھا خواب کوئی شاید ، بیدار ہوگیا ہوں
میں اُسکی راہ تکتا، جانے کھڑا ہوں کب سے
یونہی کھڑے کھڑے میں، دیوار ہوگیا ہوں
سن رکھا ہے کہ وہ، ظالم ہے بے پناہ
دل کو ہے خوف بھی اور تیار ہوگیا ہوں
گزرا تو قدم خود ہی اُٹھے اُس کی پیروی میں
میں آج دل کے ہاتھوں، لاچار ہوگیا ہوں
کہتے ہیں لوگ عشق میں پاگل سا اِک مریض
تم ہی بتاؤ مجھ کو ، بیمار ہوگیا ہوں؟
خود سے صبح میں خود کو سنوارا نہیں گیا
شاید میں اپنے آپ سے بیزار ہوگیا ہوں
جتنا میں اُس کے پیچھے، ترسا ہوں تڑپا ہوں
میں اب تو اُس کی قدر کا حقدار ہوگیا ہوں
شاعری اک عجیب دکھ ہے
شاعری اک عجیب دکھ ہے
اور محبت شدید دکھ ہے
وسیع محبت کی آڑ لے کر
حسین وعدوں کی باڑ دے کر
غم۔سارے ادھار لے کر
اُس کو تحفے ہزار دے کر
میں اپنے رستے سے ہٹ گیا ہوں
بہت ہی ٹکڑوں میں بٹ گیا ہوں
محبوب دکھ ہے، نصیب دکھ ہے
اور محبت شدید دکھ ہے
شاعری اک عجیب دکھ ہے
شاعری اک عجیب دکھ ہے
اور محبت شدید دکھ ہے
وسیع محبت کی آڑ لے کر
حسین وعدوں کی باڑ دے کر
غم۔سارے ادھار لے کر
اُس کو تحفے ہزار دے کر
میں اپنے رستے سے ہٹ گیا ہوں
بہت ہی ٹکڑوں میں بٹ گیا ہوں
محبوب دکھ ہے، نصیب دکھ ہے
اور محبت شدید دکھ ہے