ملالہ یوسفزئی کی شہرت

ملالہ یوسفزئی کی شہرت کا آغاز پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ان کی بہادری سے کی گئی جدوجہد سے ہوا۔ سوات وادی میں پیدا ہونے والی ملالہ ایسے علاقے میں پلی بڑھی جہاں طالبان نے لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔

 خطرات کے باوجود

 ملالہ کے والد، ضیاء الدین یوسفزئی، نے انہیں طالبان کی تعلیم دشمن کوششوں کے خلاف آواز اٹھانے کی ترغیب دی۔

2009 میں، صرف 11 سال کی عمر میں، ملالہ نے بی بی سی اردو سروس کے لیے "گل مکئی" کے قلمی نام سے ایک بلاگ لکھنا شروع کیا۔ اس بلاگ میں انہوں نے طالبان کے زیرِ تسلط زندگی اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اپنی جدوجہد کو بیان کیا۔ ان کا بلاگ تیزی سے عالمی توجہ کا مرکز بن گیا، اور وہ طالبان کی تعلیم دشمن پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کی علامت بن گئیں۔

ملالہ کا پیغام دنیا بھر میں مقبول ہوا

، اور انہیں ان کی جدوجہد کے اعتراف میں مختلف اعزازات سے نوازا گیا۔ 2011 میں، انہیں پاکستان کا پہلا نیشنل یوتھ پیس پرائز دیا گیا۔ ان کی شہرت میں مزید اضافہ ہوا، اور 2013 میں، انہوں نے اپنی کتاب "آئی ایم ملالہ" تحریر کی، جو عالمی سطح پر بیسٹ سیلر ثابت ہوئی اور انہیں لڑکیوں کی تعلیم کی ایک مضبوط آواز بنا دیا۔

2012 میں طالبان کی جانب سے

 ملالہ پر کیے گئے قاتلانہ حملے نے ان کے عزم کو مزید مضبوط کیا اور انہیں عالمی سطح پر مزید پذیرائی ملی۔ اس واقعے نے دنیا بھر میں غم و غصے اور یکجہتی کی لہر پیدا کی، اور لوگوں نے ملالہ کے مشن کی بھرپور حمایت کی۔

آج، ملالہ نوبل امن انعام یافتہ،

 بیسٹ سیلنگ مصنفہ، اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ایک معروف وکیل ہیں۔ ان کی ہمت اور استقامت نے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا ہے، اور وہ دنیا بھر میں تعلیم اور انسانی حقوق کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔