شعری مجموعہ
ظہیؔر احمد
یہ شعری مجموعہ پچھلی چار دہائیوں پر پھیلے میرے شعری سفر کا پہلا سنگِ میل ہے ۔ اس سفر کے دوران کئی نشیب و فراز آئے ۔ نو آموزی کے دور میں شعری نشستوں اور مشاعروں میں بھی شرکت کی ۔ کچھ دیر تک حیدرآباد کی ادبی سرگرمیوں کا حصہ بھی بنا لیکن پھر سلسلۂ تعلیم اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں نے ترجیحات بدل ڈالیں ۔ میڈیکل تعلیم ختم کرنے کے فوراً بعد سے فکرِ معاش کا جو انتھک سلسلہ شروع ہوا تو یوں سمجھئے کہ پھر کسی بھی شہر میں قدم زیادہ دیر تک جم نہ سکے ۔ کششِ آب و دانہ ۱۹۹۱ ء میں امریکا کھینچ لائی اور پھر یہیں کا ہو کر رہ گیا۔ اس دوران یوں بھی ہوا کہ لکھنا ترک کردیا اورکئی سال تک ایک مصرع بھی موزوں نہ ہوا ۔ اور درمیان میں کچھ ایسے سال بھی آئے کہ رہوارِ قلم ہوا کے دوش پر سوار رہا۔ اگرچہ شمالی امریکا میں اردو شعر و ادب کے حوالے سے اچھی خاصی سرگرمیاں پائی جاتی ہے لیکن بوجوہ میں ان سے دور رہا ہوں اور اپنی شعرخوانی کو ایک مختصر سے حلقۂ احباب تک ہی محدود رکھا ہے۔ اگرچہ یہ بات طے ہے کہ ادبی ماحول نہ صرف قلم کے لئے مہمیز کا کام کرتا ہے بلکہ نقد و نظر کا وہ اہم عنصر بھی فراہم کرتا ہے کہ جس کی روشنی میں فن جلا پاتا ہے لیکن اس تمام خسارے کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ ادبی سرگرمیوں سے دوری کا ایک مثبت اثر یہ ہوا کہ مجھے شاعری برائے شاعری جیسی کسی صورتحال سے واسطہ نہیں پڑا اور شعر گوئی کے محرکات خالصتاً ذاتی اور داخلی نوعیت کے رہے ۔
کئی سال پہلے کشاکشِ روزگار نے ذرا مہلت دی اور گرانیِ روز و شب ذرا کم ہونے لگی تو میں نے اردو ویب پر اہلِ علم و ہنر اور اربابِ ذوق کا ایک حلقہ دریافت کیا اور اپنی شاعری کی اشاعت شروع کی۔اپنے سرمایۂ سخن کے بارے میں صرف اتنا کہوں گا کہ اس کی کم مائیگی کا مجھے پورا ادراک ہے۔ میری صدا چند شکستہ الفاظ سے زیادہ کچھ نہیں لیکن یہ الفاظ احساس کے خلوص اور اظہار کی سچائی سے معمور ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ نطقِ ضمیر سے ابھرتی ہوئی کسی بھی آواز کی طرح ان کی سچائی اپنے زمان و مکان میں اپنی جگہ معتبر ہے ۔ اوریہی خیال اس مجموعے کی اشاعت کے پیچھے کارفرما ہے۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف!
اگرچہ میں ذاتی طور پر اس بات کا قائل ہوں کہ اس دم بدم بدلتی دنیا میں جدید مسائل اور ان کے تعامل سے پیدا ہونے والی جدید حسیات کے اظہار کے لیے نظم کا فارمیٹ زیادہ مؤثر اور کار آمد ہے لیکن اس کے باوجود میرا بیشتر کلام غزلیات پر مشتمل ہے جس کی وجہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ مؤثر نظم لکھنے کے لیے جس ذہنی یکسوئی اور فرصت کی ضرورت ہوتی ہے وہ مجھے اپنی پیشہ ورانہ مصروف زندگی میں بہت کم میسر آسکی ہے۔ چنانچہ اظہارِ خیال کے لیے غزل کا فارمیٹ مجھے تقاضا ہائے روز و شب سے کم الجھتا نظر آتا ہے۔ میرا فلسفۂ شعر بہت سادہ ہے۔ میں اپنی شعری شخصیت کے آئینے میں خود کو اردو تہذیب کی دیرینہ روایات کا اسیر اور مرتی ہوئی اقدار کا نوحہ خواں نظر آتا ہوں۔ میری شعوری کوشش ہوتی ہے کہ عصرِ جدید کے آزار و مسائل اور تقاضوں کو موضوعِ سخن بنایا جائے۔ ہجر اور ہجرت کے اسباب اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے منظرنامے کو مختلف زاویوں سے دیکھنا میری شاعری کا ایک نمایاں پہلو ہے۔ نئی دنیا اور پرانے آدمی کے تضادات کو نرم و شائستہ لہجے میں اجاگر کرنا میری کوشش رہی ہے۔ اظہار کی اس کوشش میں میں نے حتی الامکان غزل کی دیرینہ روایات کی پاسداری کرتے ہوئے جابجا نیا لہجہ اپنانے کی سعی بھی کی ہے۔ چنانچہ میرے شعر میں آپ کو روایتی لفظیات اور نو ساختہ ترکیبات کا ایک امتزاج نظر آئے گا۔ میں اس کوشش میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں اس کا فیصلہ تو پڑھنے والے ہی کریں گے۔ میں نے اپنی تخلیقی کاوشات کو نہ صرف روایتی عروضی اصول و قواعد کا پاسدار رکھا ہے بلکہ اصولِ قافیہ سے انحراف کی جو ایک نئی لہر عصری شاعری میں نظر آتی ہے اس سے پہلو تہی کا رویہ بھی اپنایا ہے۔میں نے کچھ غزلوں اور نظموں میں نئی بحور و اوزان کے تجربات بھی کیے ہیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں روایتی عروض کے دامن کو وسعت دینا اور مباحات کو مزید لچک دار بنانا اردو شاعری کی اہم ضروریات میں سے ایک ہے۔
منتخب غزلوں اور نظموں پر مشتمل اس مجموعے میں بیشتر کلام پچھلی تین دہائیوں کا ہے۔ اس مجموعے میں شامل بیشتر کلام محترمی و مشفقی اعجاز عبید صاحب تین سال پہلے خاکدان کے نام سے ایک ای بک کی شکل میں بھی شائع کرچکے ہیں۔ اُس ای بک میں تمام منظومات کو زمانی اعتبار سے ترتیب دیا گیا تھا لیکن اِس ایپ میں غزلوں اور نظموں کو قارئین کی سہولت کے لیے علیحدہ زمروں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ شاعرِ خوش نوا اور عزیز دوست سیؔف نظامی (حیدرآباد ، دکن) نے اس ایپ کے لیے نہ صرف انتخابِ کلام میں مدد دی بلکہ اس ایپ کی تیاری اور نگرانی کی تمام تر ذمہ داری بھی شروع سے آخر تک اپنے کاندھوں پر اٹھائے رکھی۔ اس کے لیے وہ خصوصی شکریے کے مستحق ہیں ۔
ظہؔیر احمد
۲۵ اکتوبر ۲۰۲۳ء
(اوکلا ہوما ۔ ریاستہائے متحدہ امریکا)