داستانِ عبرت
اُجڑی ہوئی بستیوں کے کھنڈرات میں آنے والی نسلوں کیلئے بہت سی سبق آموز داستانیں پنہاں ہوتی ہیں۔ جن سے ہمیں ان بستیوں کے مکینوں کے رہن سہن اور رسم ورواج کے ساتھ ساتھ، سب سے اہم بات، ان کے برباد ہونے کے اسباب کی معلومات ملتی ہیں۔ جوعقل والوں کیلئے یاددہانی ہوتی ہے۔ ایسی ہی ایک مثال پومپئی کی ہے۔
پومپئی اٹلی کا ایک تاریخی شہر تھا۔ جو ۱۷۰ ایکٹر پر پھیلا نپولیز کے قریب مائونٹ ویسویئس (mount Vesuvius) کے جنوب میں واقع تھا۔ اس شہر میں تقریبا ۱۱۰۰۰ افراد آباد تھے جو تمام کے تمام ۷۹ میں آتش فشاں راکھ کی تقریبا ۲۰ فٹ موٹی تہہ کے نیچے دفن ہو گئے تھے۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ان پر مزید گرد پڑتی گئی اور لوگ ان کی داستان بھول چکے تھے۔ لیکن آٹھارویں صدی عیسوی میں اس شہر کی باقیات دریافت کی گئیں اور پورے کا پورا شہر کھود نکالا گیا۔ تاکہ یہ بستی لوگوں کو اپنی بھولی داستان یاد کروائے۔
محققین بتاتے ہیں کہ یہ ایک فروغ پزیر شہر تھا، جو سرسبزوشاداب اور دل نشیں گردونواح میں واقع تھا۔ جس کی پتھروں سے بنی عالی شان عمارتیں غیر اخلاقی تصویروں سے سجی ہوئی تھیں۔ دیواروں پہ بنی مورتیاں اور سڑکوں پہ سنگ تراشی کے نقوش اس بستی کے ماضی کی داستان بیان کرتے تھے۔ وہاں موجود پتھر ہوئی انسانی لاشیں جن کی موت کے لمحات کو آتش فشاں راکھ نے ہمیشہ کیلیے منجمند کر دیا تھا، چیخ چیخ کر اپنے انجام کی داستان سنا رہی تھیں
اس بستی کے لوگ مجموئی طور پر غیراخلاقی سرگرمیوں میں یہاں تک مشغول ہو چکے تھے کہ جنسی کاروبار ان کا بنیادی روزگار بن چکا تھا یہاں نہ صرف عورتیں بلکہ مرد بھی فروخت ہوتے تھے۔ اور یہ کاروبار صاحب اقتدار کو ماہانہ ٹیکس ادا کرتا تھا، یعنی ریاست سے منظور شدہ کاروبار بن چکا تھا۔ اس طرح اس بستی کی برائی ان کیلیے خوشنما بن چکی تھی۔
اس بستی کی داستانِ عبرت پڑھتے ہوئے آپ کو قوم لوطؑ ضرور یاد آتی ہے۔ کیونکہ اُس قوم کا حال اس بستی سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھا۔ دونوں کے جرم ریاست سے منظور شدہ اور نوعیت کم وبیش ایک جیسی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں کا انجام بھی ایک سا ہوا یعنی پکی ہوئی مٹی کے نیچے پوری کی پوری قوم ہمیشہ ہمیشہ کیلیے دفن کر دی گئی۔ جیسے اللہ تبارک و تعالی نے قرآن شریف میں ارشاد فرمایا ہے۔ سورہ ھود (۸۲-۸۳)
پھر جب ہمارا حکم آپہنچا تو ہم نے اُس بستی کو تلپٹ کر کے رکھ دیا اور اُس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر برسائے، تہ برتہ۔ جو تمھارے پروردگار کے ہاں نشان لگائے ہوئے تھے اور وہ اِن ظالموں سے کچھ زیادہ دور نہیں تھے۔
ان بستیوں کے احوال ہمارے لیے یاددہانی ہے۔ جب کسی بستی کا جرم ریاستی سطح تک پہنچ جائے یا اس بستی کے صاحب اقتدار اُس جرم میں براہ راست شامل ہوں یا اُس جرم کی پُشت پناہی کرتے ہوں تو ایسی قوم جلد یا دیر اللہ کے عذاب کا لقمہ اجل بن جاتی ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کی (۱۶-۱۷) ان دو آیات میں اللہ تعالی ہمیں کچھ ہوں یاددہانی کرواتا ہے۔
جب ہم کسی بستی کو (اُس کے کرتوتوں کی پاداش میں) ہلاک کر دینا چاہتے ہیں تو اُس کے خوش حالوں کو حکم دیتے ہیں کہ جاؤ، جو جی چاہے، کرو۔ پھر وہ اُس میں نافرمانیاں کرتے چلے جاتے ہیں، تب اُس بستی پر بات پوری ہو جاتی ہے اور ہم اُس کو بالکل برباد کرکے رکھ دیتے ہیں۔ (دیکھ لو)، نوح کے بعد ہم نے کتنی ہی قومیں اِسی طرح ہلاک کر دیں۔ (اے پیغمبرﷺ)، اپنے بندوں کے گناہوں کو جاننے اور اُن کو دیکھنے کے لیے تیرا پروردگار کافی ہے۔
سورہ اعراف (۱۶۳-۱۶۶) میں اللہ تبارک و تعالی ایک اور مثال بیان کرتے ہیں۔
اور اُن سے اُس بستی کا حال بھی پوچھو جو سمندر کے کنارے تھی، جب وہ سبت کے معاملے میں (خدا کے حدود سے) تجاوز کرتے تھے۔ جب اُن کی مچھلیاں اُن کے سبت کے دن منہ اٹھائے ہوئے اُن کے سامنے پانی کے اوپر آجاتی تھیں اور جب سبت کا دن نہ ہوتا تو نہیں آتی تھیں۔ ہم اِس طرح اُنھیں آزماتے تھے، اِس لیے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے۔ اور اُنھیں یاد دلاؤ، جب اُن میں سے ایک گروہ نے (نصیحت کرنے والوں سے) کہا: تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنھیں اللہ ہلاک کرنے والا ہے یا سخت سزا دینے والا ہے؟ اُنھوں نے جواب دیا: تمھارے پروردگار کے حضور اپنا عذر پیش کرنے کے لیے اور اِس لیے کہ یہ (خدا کے غضب سے) بچ جائیں۔ پھر جب اُنھوں نے وہ سب کچھ بھلا دیا جس سے اُنھیں یاددہانی کی گئی تھی تو ہم نے اُنھیں نجات دی جو برائی سے روک رہے تھے اور جنھوں نے اپنے اوپر ظلم کیا تھا، اُنھیں ایک سخت عذاب میں پکڑ لیا، اِس لیے کہ وہ نافرمان ہو چکے تھے۔ چنانچہ جس چیز سے روکے گئے تھے، جب سرکشی کے ساتھ وہی کیے چلے گئے تو ہم نے اُن سے کہہ دیا کہ جاؤ ذلیل بندر بن جاؤ۔
اس بستی کے لوگوں کو تین گروہوں میں بانٹا گیا ہے۔ جرم کرنے والے، جرم کرنے سے روکنے والے اور خاموشی اختیار کرنے والے۔ اللہ سبحان و تعالی بیان کرتے ہیں کہ روکنے والوں کو بچا لیا گیا اور جرم کرنے والوں کہ مسخ کر دیا گیا۔ اُن سب پچھلی بستیوں کے احوال میں ہمارے لیے یاددہانی ہے تاکہ ہم سبق حاصل کریں اور اپنی اصلاح کریں۔ اس سے پہلے کہ ہماری مہلت کا وقت ہمارے ہاتھ سے نکل جائے اور ہمارا فیصلہ چکا دیا جائے۔
ہمیں سب سے پہلے اس بات کی جانچ کرنی ہوگی کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، کہیں ہم ظلم کرنے والے گروہ میں تو شامل نہیں۔ اگر ایسا ہے تو ہمیں ان مہلت کے اوقات میں اپنی اصلاح کرنی ہوگی اور پھراصلاح کے بعد ہمیں اپنے اختیارات، صلاحیت اور منصب کے مطابق ظلم کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی۔
جب بھی میں اپنے ملک کے حالات و واقعات کواُن برباد شدہ بستیوں کے تناظر میں دیکھتا ہوں تو خوف سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ہم بھی مجموئی سطح پر ظلم کرنے والی قوم اور ریاست بن چکے ہیں۔ جہاں ظلم کرنے والوں کی کثرت ہے لیکن روکنے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ اگر ہم اپنی اصلاح نہ کر سکے تو خدانخواستہ ہماری بستی بھی خدا کے عذاب کا شکار ہو جائے گی اور اس قوم کی جگہ کوئی دوسری قوم آباد کر دی جائے گی۔ اللہ تبارک وتعالی ہمیں مظلوم کا ساتھ دینے اور ظلم کو روکنے کی توفیق عطا فرمائے آمین!
ڈاکٹر محمد شہبازانور
Nine thousand years old Physicians and Scientists of Pakistan
Homo Sapiens “wise men” the only extant human species on Earth, once evolved in Africa and extended all of the world. After spending a long time in Africa primarily running after hunt, sapiens trekked through a doorway, the middle east, to explore rest of the world and find more food. Settling down in the form of small groups around fresh water sources that ultimately developed individual civilisations and exlusive cultures including Indus civilization of Indus River todays Pakistan and Mesopotamia civilization surrounded by two rivers Tigris and Euphrates todays Arab. The deserted towns of that old civilizations are rich source of knowledge of human expansion and development. Interestingly enough, some of the ancient civilizations were scientifically advanced and technologically skilled such as a nine thousand years old society once established near Bolan river in Mehrgarh, Balochistan, Pakistan. Today’s modern civilizations are persevering that invaluable treasure, which is leading them to excavate human history, dig out the knowledge of human migration and development, and explore the cultural values and way of living. Moreover, they are wisely displaying the archaeological sites for the business of tourism, which is contributing 8.81 trillion US dollars in world economy.
Pakistan is blessed with astonishingly plenteous archaeological sites including, Taxila, Mohenjo-Daro, Harappa, Rehman Dheri and their history goes back to about 5000 years. Surprisingly, in 1973, a French archaeologist Jean-Francois Jarrige discovered a history-written archaeological site in Mehrgarh placed about 30 Km away from Sibi, in the west of the Indus river. The history of Mehrgarh traced back to 9000 years, which indicates that it was one of the oldest civilizations in the world. Almost 32,000 invaluable artifacts were found at the excavation and many irreplaceable articles were moved out of Pakistan to display in different museums and for scientific research as well. The study disclosed that it was a modern Neolithic (new stone age) society that eventually established early farming culture in the area and form the basis to commence the Indus civilization as well.
Of course, it is not wrong to say that Mehrgarh was a civilization of engineers, scientists and physicians. In fact, they were first dentists and highly skilled scientists of materials science in the world. A recent research work on artifacts and skeletons reveal that Mehrgarh people were used to treat expertly human teeth by drilling. Furthermore, they were fabricating some remarkable ceremonial ornaments by processing extremely pure copper to form different types of alloys. These scientific findings have already been published in world renowned research journals and magazines including Nature and Nature Communications.
Based on available evidence, now it is an established fact that nine thousand years ago first dentists in the world from Mehrgarh were treating patients’ molar teeth using self-developed wooden drills and bits made of pure silica that was rotated at about 20 times a second. A team of Italian scientists found that teeth of nine out of 300 exhumed skeletons from a graveyard of Mehrgarh were treated by drilling about four-millimetre-deep holes to remove the decay, rot damage and wear and tear. Interestingly, the poor conditions of the teeth and holes at the back of the jaws evidently indicating that it was only performed for medical purposes. Similar drills were used to prepare beads for jewellery, that was also found at the site. Moreover, such drilling process could be excruciatingly painful and most likely pain relief medicine mainly contains opium were offered to patients since the area of Mehrgarh was well-known for opium production. Fascinatingly, scientists believe that the drilled cavities were refilled, most probably, bitumen, resin or cotton was used as a filling substance. No doubt, it was a imperative history changing discovery since previously, a 5000 years old evidence of dentistry was found in Denmark.
People were not only excellent physicians but also advanced materials scientists. They were preparing few centimetres in diameter wheel shaped amulet of extremely pure copper using lost-wax technique about 6000 years ago. So far, it is not clear for what purposes those ornaments were prepared. However, it may be the first concept of spoked-wheel shape itself. The scientific investigations are still on going to understand the microstructure and composition of the ornaments. Surprising thing for scientists is how those people got expertise in copper processing and formation of alloys. In September 2019, I was invited in an international conference to deliver an invited talk on my current research work related to materials science. In the same conference, a researcher from the University of Paris presented his new findings about the exotic composition of that wheel shaped amulet once fabricated at Mehrgarh. During our discussions after the session, I came to know that these all valuable artifacts are now in custody of Paris Museum. That French scientist was not sure how the belongings of Mehrgarh were moved to Paris. But he argued that at least these invaluable artifacts are in safe hands, which is essential for perpetual salvation. Of course, it is unfortunate that we are not able to preserve our own treasure. At least, in all of their research presentations they honestly mention the origin with maps. Moreover, that French scientist told me that they have similar kind of articles of Mehrgarh that are even 8000 years old, which will the targets for future study.
Unknowingly, most of the people rank the Indus valley at top of the oldest civilization in Pakistan. Most likely, Mehrgarh was precursor for the Indus civilization. We have convincing evidence of appropriate village settlement, cattle domestication and deliberate diffusion of Mehrgarh society in Indus societies. Genetical research indicates the gene flow from Middle East to Mehrgarh, which was the oldest society in subcontinent. It indicates that Mehrgarh also commenced the other civilizations in south Asia including Indus civilization.
We have significant historical knowledge of materials science and technology and medicine as well hidden in Pakistan. Unfortunately, the scientific research on archaeological artifacts and minerals found in Pakistan is being conducted mainly by western scientists. Moreover, we must understand it that the archaeological discoveries happened in Pakistan are substantially valuable for physical and social sciences, and for humanities as well. More importantly, it can be an extraordinary attraction for tourism.
=================================================================================
اگر کوئی غیرمذہبی انسان تاریخِ کربلا کا مطالعہ کرے تو اسے بھی انتہائی دکھ ہوگا اس ظلم پر جو آلِ محمدؐ پہ ڈھایا گیا ہم آج اُس درد اور دکھ کا اظہار اپنے آپ کو پیٹ کر یا لہولہان کرکے نہیں بلکہ اس سفرِ حیات و ہدایت پہ عمل کرکے کرسکتے ہیں جو جنابِ عالی مقام امام حسینؓ لے کر چلے تھے وہ ہدایت جو آپؓ نے براراست سرچشمہِ دین و ہدایت سے حاصل کی، جن کی گود میں نہ صرف آپؓ نے بلکہ آپؓ کی عظیم ماںؓ اور باپؓ نے اپنا بچپن گزارا
آج ہم باہمی تفرقہ کا شکار ہیں، جو ہمارا دشمن چاہتا تھا افسوس کے ساتھ کہنا پڑھ رہا ہے کہ شاید ہم اپنے دشمن کو ہی کامیاب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اللہ تبارک بتالٰی ہمیں اس ہدایت پہ عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے جس کی خاطر آلِ محمدؐ نے اپنی جانوں کا نزرانہ پیش کیا آمین
ابھی تو میں جوان ہوں
شاید کہ ہماری ظاہری عمر حقیقی عمر سے زیادہ تیزی سے گزر رہی ہے. جبکہ ہمارا قلب ایک لمبے عرصے سے اسی بات پر اٹکا ہوا ہے کہ ابھی تو ہم جواں ہیں. اپنے بھانجے اور بھتیجوں سے دور رہنے کی وجہ سے ہمارے کان ماموں اور چاچو سننے کے بھی کوئی خاص عادی نہیں ہیں. ہمارے ایک عزیز دوست کے بچوں سے اکثر ملاقات تو ہوجاتی ہے لیکن وہ بھی ہمیں تایا کہنے کی بجاۓ انکل کہتے ہیں. بچوں کا کیا ہے وہ تو کسی کو بھی انکل کہ دیتے ہیں. انہی غلط فہمیوں کی وجہ سے ہم کئی بار کسی خاتون کو آنٹی کہنے پر بے عزت ہو چکے ہیں. ایک فنکشن میں ہمارے ایک دور کے دوست ہم سے ملنے کے بعد دوسرے دوستوں سے ملنے کیلئے آگے بڑھے تو ان کے پیچھے پیچھے ایک بڑی معزز سی خاتون آرہی تھیں ہم نے ان کو بڑے ادب سے آنٹی کہتے ہوۓ سلام بول دیا. الله بھلا کرے ان کا انہوں نے ہمیں کچھ نہیں کہا یہان تک کہ سلام کا جواب بھی نہیں دیا. کچھ دیر کے بعد ہم نے دیکھا کہ وہ خاتون تو ہمارے اس دور کے دوست کی بانہوں میں بانہیں ڈالے ہوۓ گھوم رہی ہیں. بیڑہ غرق وہ ہماری آنٹی نہیں بلکہ وہ تو ہماری دور کی بھابھی تھیں. اس دن کے بعد ہم ان بھابھی کے سامنے تو کیا اپنےدور کے دوست کے قریب بھی نہیں بھٹکے. پچھلے دنوں ایک خاتون سے سرے رہ ملاقات ہوئی جو اپنے بیٹے کے ہمراہ تھیں. ان کا بیٹا قد بت میں تو ہمارے ہی جتنا تھا اب خدا نے ہمیں جتنا بھی قد دیا ہے شکر ہے اس کا. بس یہی دیکھتے ہوۓ ہم ان خاتون کو بھی آنٹی کہ گزرے. اس خاتوں نے ہمیں بڑھے ادب سے روکتے ہوۓ کہا "جاؤ جا کے شیشہ ویکھو پاجی". اس دن کے بعد ہم نے کسی بھی خاتون سے رشتہ جوڑنے کی کوشیش نہیں کی وہ جو بھی کہہ دیں ہم کان بند کر کے سن لیتے ہیں. الله ہم سب کو تندروست و جوان رکھے اور ہمارے دلوں میں بسنے والے بچے کو ہمیشہ زندہ رکھے آمین
ایک وہ دور تھا جب کتاب کھولنے سے خوف آتا تھا اور اب کتاب کے کھلنے سے خوف آتا ہے. تب نیند آتی تھی اور اب جاں نکلتی ہے
ڈاکٹر محمد شہباز انور
ہمارے کچھ اساتزا اور کچھ مہربان ہمیں طنزًا دیسی۔آنسٹائن کہا کرتے تھے. ہمیں کبھی بھی اِس بات کا دکھ نہیں ہوا تھا. بلکہ یہ جان کر خوشی ہوا کرتی تھی کہ ہم اُس دور کے دیسی۔آنسٹائن ہیں جس دور میں دیسی بکرا تو کیا انڈا بھی ملنا محال ہے. اگر ایسے میں دیسی۔آنسٹائن مل جائے تو یہ خدا کی قدرت ہے
کٹوں کا حدود آرڈیننس
بھینس کا بچہ بڑا خوبصورت اور طاقتور ہوتا ہے جسے عرف عام میں کٹا کہا جاتا ہے. کچھ کٹے تو امن پسند اور شریف ہوتے ہیں. جن سے ان کا مالک بہت پیار کرتا ہے اور انہیں ایک خاص عمر کے بعد ایک آرامدہ رسے کے ساتھ باند رکھتا ہے جو نہ تو اتنا لمبا ہوتا ہے کہ ان کی گردن آسمان کو چھونے کی کوشیش کرے اور نا ہی انتہائی چھوٹا کہ انکی گردن زمیں بوس ہی رہے. بس اتنا جس سے وہ اپنی حد میں ہی رہیں. کٹا توآخر کٹا ہوتا ہے جتنا بھی شریف ہوکوئی نا کوئی شکایت آہی سکتی ہے اسلئے اسے باندنا ضروری ہے لیکن کچھ کٹے بےحد شرارتی اور شیطانی ہوتے ہیں کہ وہ ہموقت ہر حد پار کرنے کی کوشیش میں ہی رہتے ہیں. ایسے کٹوں کو سبق سکھانے کیلئے ان کا مالک بھی ان کے ساتھ خاص برتاؤں کرتا ہے. اگر مالک کو ان سے پیار ہو تو ان کی رسی کچھ عرصے کیلئے تنگ کر دیتا ہے تاکہ وہ سبق حاصل کریں اور تابعداری کیساتھ اپنی حدود میں رہیں. توبہ تائب ہونے والوں آرام کی زندگی کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے لیکن وہ جو خود کو تبدیل کرنے میں ناکام رہتے ہیں ان کو ان کا مالک قصائی کے حوالے کر دیتا ہے تاکہ وہ کسی کے کام آجائیں. اگر مالک کو کیسی کٹے سے پیار نہ رہے تو وہ اس کا رسہ بہت لمبا چھوڑ دیتا ہے. جس سے کٹا سمجھتا ہے کہ اسے آزادی مل گئی اور وہ اپنی اسی نا سمجھی میں خوب اچھلتا کودتا ہے اور تمام حدود کو پار کرتے ہوے اپنی رسے کی آخری حد کو جا پہنچتا ہے. اپنے جوش شیطانی میں یونہی رسے کی حد کو بھی پار کرنے پہ پہنچتا ہے تو رسی کھچ جاتی ہے. جسکے نتجے میں وہ گردن کے بل یوں گرتا ہے کہ اپنی قیمتی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے. پھر اس کے جسم کے گند کو گدیں نوچ نوچ کر کھاتی ہیں اور الله کی زمیں کو اسے کٹوں سے صاف کردیتی ہیں. الله تبارک و تعالی ہمیں اپنی حدود میں رہنے اور امن سے زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرماے آمین
ڈاکٹر محمّد شہباز انور
ایک مسلمان کی زندگی میں نماز کی اہمیت اتنی ہے جتنی کہ ایک انسان کی زندگی میں کھانے کی. جس طرح انسان کا جسم خوراک کے بغیر اپنی موت کو جا پہنچتا ہے اسی طرح نماز سے پرہیز مسلمان کی روح کو مردہ کردیتا ہے. اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھئے کہ اگر کھانے کے ساتھ چہل قدمی یا کوئی ورزش نہ کی جاۓ تو فائدہ ہونے کی بجاے الٹا نقصان ہی ہوگا. اور ہاں اووریٹنگ تو انتہائی نقصاندہ ثابت ہوسکتی ہے. ایک صحتمند، اور ہوشیار وجود صرف اور صرف متوازن خوراک اور باقاعدہ عملی ورزش سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے. الله تبارک و تعالی ہمیں عملی طور پر نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین
خدا کی قسم الله صرف قسمت والوں کو ہی بیٹی جیسی رحمت سے نوازتا ہے. الله نے اپنی کتاب الحکمت و ہدایت القرآن میں فرمایا ہے کہ ان بچوں سے پوچھا جاۓ گا جن کو زندہ دفن کر دیا گیا تھا کہ آپ کو کس جرم میں قتل کیا گیا ؟ میرا ایمان کہتا ہے کہ الله عورت سے یہ بھی ضرور پوچھے گا کہ تجھے کس وجہ سے طلاق دی گئی؟ کس جرم میں تجھے تیری جائیداد کا حق نہیں دیا گیا؟ تجھے کیوں علم و تعلیم سے دور رکھا گیا؟ وہ ضرور یہی کہیں گی کہ یاالله اپنے بندوں سے ہی پوچھ
لیجے. کیا ہمارے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب ہے؟ ہاں اپنی جھوٹی انا، اپنی چھوٹی سوچ، اور اپنی لالچ کی وجہ سے..... یا الله ہمیں دل و دماغ کی کشادگی عطا فرما اور ہمارے نفس کو لالچ سے محفوظ رکھ آمین
Scientists say that this university may come from out of Nothing. What is this Nothing, we may not know nothing about this Nothing. Universe evolved. In the result our solar system emerged. Our earth shaped up in a way to fully support the life on it. Life on Earth may come from out of the blue. Meteorites may bring necessary ingredient of life to this Earth. Life evolved. Human being came out. With the passage of time, life of human being changed from one phase to other. Sometimes, these phases induced by Mother Nature. But sometimes, human-being did it intentionally or unintentionally. I am a scientist who is studying ferromagnetic and superconducting materials and their correlations. We have ferromagnetic materials those are also superconductors at lower temperatures. You will observe magnetic fluctuations, when you are close to the phase chance. These fluctuations would be constructive for superconductivity but would be destructive for ferromagnetism. Whenever I try to understand our current situation, I feel some correlated fluctuations. Might be I am wrong or might be we are again close to another phase change. If there is really a phase change, May Allah makes it peaceful Ameen. [Dr. M. S. Anwar]
مریض-جن
ہمارے ایک دور کے رشتے دار، اتنے دور کے کہ وہ ہم سے اکثر دور ہی رہتے ہیں، بیمار پڑ گئے. ان کا علاج ایک انتہائی قابل حکیم صاحب کر رہے تھے اسی لئے جیسے جیسے علاج ہوتا گیا ویسے ویسے بیمار کی بیماری پڑھتی چلی گئی. اب مریض اپنے بستر تک کے ہوکر رہ گئے. لیکن ان کی بیماری کی کوئی سمجھ نہیں آ رہی تھی. گھر والوں سے جو بن پڑا انہوں نے کیا. جیسا کہ مولیوں والا سوڈا، درباروں کی مٹی، اور یہاں تک کہ مریض کے حصے کا کھانا بھی کئی بار فقیروں کو کھلایا گیا. لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا. پھر ایک روز ایک کوا کہیں سے ایک گوشت کا ٹکڑا اٹھا لایا اورصحن-مریضاں کے سکوت میں مریض کے بستر کے پاس بے خوف بیٹھ کر بڑے مزے سے کھانے ہی لگا تھا کہ ایک اسرائیلی نسل کے کوے نے اس پر حملہ کر دیا. دونوں نے اس گوشت کے ٹکڑے پر اپنی جان کی بازی لگا دی. مریض میں اتنی بھی جان نہ تھی کہ اپنی اک ہلکی سی جنبش سے وہ ان کوؤں کی لڑائی کسی انجام تک پہنچا پاتا. آخر کار ان دونوں کوؤں کو گوشت کی بوٹی سے دستبردار ہونا پڑا اور اسے مریض کے بستر کے پاس چھوڑ کر اڑ گئے. بری قسمت، ام-مریضاں کی نظر جب اس بوٹی پرپڑی تو کوؤں کی لڑائی رشتےداروں کی لڑائی پر پڑ گئی. حکیم صاحب کی چھٹی اور پیر صاحب کی موجیں شروع. یہ وہ پیر صاحب تھے جو نائی خاندان سے تعلق رکھتے تھے. ان کی نالائقی کی وجہ سے ان کو حجامت کرنے کی تعلیم نہیں دی گئی تھی. لیکن انہوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ چوری اور مکاری میں اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جن قابو کرنے کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی. ان پیر صاحب نے جن نکالنے کی پوری کوشش کی لیکن وہ جن تھا کہ نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا. جن نا صرف طاقتور بلکہ کافی ڈیٹھ ثابت ہوا. جو پیر صاحب کی کئی بار کی چھترول سے بھی نہیں نکلا. جن نے تو کیا نکلنا تھا مریض کی روح نکلنے پر آگئی اور علاقے کا گورکن بھی اپنی تیاری میں لگ گیا. جسے الله رکھے اسے کون چھکھے، مریض کے واحد پڑھے لکھے چچا اپنے جن آلود بھتیجے کی عیادت کیلئے آے. انہوں نے اتے ہی بانپ لیا کہ یہ کسی قوی جن کا ہی کام ہو سکتا ہے. انہوں نے مریض کے گھر والوں کو سمجھایا کہ اس سے پہلے اس کی روح نکل جائے وہ اس کا جن شہر کے ایک بڑے عامل سے نکلوا لاتے ہیں. اور یوں مریض-جن شہر کے ایک بڑے ہسپتال میں پہنچ گئے وہاں ڈاکٹرز نے جن نکالنے کیلئے مریض کو چالیس دن تک ای سی یو میں رکھا. اس چلے کے دوران ڈاکٹرز کو اپنے کیمیائی منتر سرنجوں کے ذریعے مریض کی رگوں میں کئی بار دوڑانے پڑے. تب جاکر کہیں جن سے جان چھوٹی. اس علاج کے بعد وہ نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑے هوئے بلکہ خدمت-خلق کیلئے اب بزاتخود لوگوں کے جن نکالتے ہیں. الله ہم سب کو جنوں اور شیطانوں کے شر سے محفوظ رکھے اور ہمیشہ ڈاکٹر سے رجو کرنے کی توفیق عطا فرماے آمین
===========
جب کوئی انسان الله کے کاموں اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے تو وہ مشرک ہوجاتا ہے. الله ہر گناہ معاف کر دے گا لیکن شرک اور منافقت معاف نہیں کرے گا. قیامت کے روز الله مشرکوں کو آگ کی سزا دے گا آگ کی سزا صرف اور صرف الله کو سزاوار ہے کسی انسان کی اتنی جرات نہیں ہونی چاہے کہ وہ کسی کو جلا ڈالنے کی سزا دے. جن بستیوں میں قانون، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اعلیٰ عدالتوں کی ماجودگی میں لوگ اپنی منافقت کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے لوگوں کو سرے عام آگ لگا دیتے ہوں. ایسی بستیوں کے نشان تاریخ کی کتابوں میں بھی نہیں ملتے.
========
کتخانہ!!!
ہم اپنی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے پرائمری اور ہائی سکول سے حاصل کرنے کے بعد اعلی تعلیم کیلئے گورنمنٹ کالج سائنس فیصل آباد چلے گیے. گاؤں کے سکولز میں تو سبھی شلوارقمیض ہی پہنا کرتے تھے جبکہ کالج میں ہمیں پینٹ شرٹ پہننا تھی. اب ہم اپنے گاؤں کے ایسے پہلے طالب علم تھے جو پینٹ شرٹ پہن کر گاؤں آرہے تھے. گاؤں کے لوگوں نے تو جیسے تیسے اسے اتنا سراہا کہ ہمیں بابو کہنا شروع کر دیا. اب یہ معلوم نہیں کہ وہ ہمیں خوشی سے کہتے یا طنز میں. لیکن دوسری طرف ہمارے گاؤں کے کتوں کو ہمارا ترقی کرنا پسند نہ آیا اور انہوں نے ہم پہ بلاوجہ بھونکا شروع کر دیا. ہم جب بھی گاؤں تشریف لاتے تو وہاں کے کتوں سے نظریں بچا کر گھر پہنچتے اور سب سے پہلے گاؤں کے قومی لباس کو زیب تن کرتے. ایک دن ایسا ہوا کہ ایک کمینے سے کتے کی ہمارے اوپر نظر پڑھ گئی اور وہ دور ہی سے بھونکتا ہوا ہمارے اکلوتے ٹو پیس کو کئی پیس کرنے کیلئے ہماری طرف بھاگا. اس سے پہلے کہ ہم وہاں سے بھاگ کھڑے ہوتے' ہم نے ایک لمحے کیلئے سوچا کہ اگر آج ہم اس ملی جلی نسل کے کتے سے بھی ڈر گئے تو پھر کر لی ہم نے ترقی. یہی سوچتے ہوۓ ہم نے کتے کی طرف ڈورنا شروع کر دیا. جب کتے نے ہمیں بڑے حوصلے اور ہمت سے اپنی طرف آتے دیکھا تو وہ اپنی دم دباتے ہوۓ ایسے بھاگا جیسے کوئی وزیر اپنا جہاز چھوڑ کر بھاگتا ہے یا کوئی خنزیر کسان کے ڈر سے پکی ہوئی فصل چھوڑ کر بھاگتا ہے. اس دن کے بعد ہمیں کسی ایسے کتے نے تنگ کرنے کی ہمت نہیں کی ماسواۓ چند پڑھے لکھے کتوں کے. اور پڑھے لکھے کتوں کا حل یہ ہے کہ آپ انسے پڑھی لکھی بات کریں اور بہتر ہوگا اگر آپ کسی قانوندان کو بھی ساتھ کر لیں. الله آپ سب کو کتوں سے بچنے اور انہیں سدھارنے کی ہمت اور توفیق عطا کرے آمین
========
ایک کسان نے اپنے کتے کو اسلئے گولی مار دی. کہ وہ چور پر اس وقت تک نہ بھونکتا جب تک کسی چور کا پاؤں اس کی دم پر نہ آجاتا
========
اک وہ حکمراں تھے، جو تھے حکومت سے ڈرتے
آج ہیں تو مگر، حصول اقتدار کیلئے ہیں لڑتے
سمجھتا ہے کیا، حشر میں نہ پوچھے گا کوئی
تیرے ملک میں غریب کتنے، رہے بھوک سے مرتے
بنتی ہے تحریک ان عناصر سے انقلابی
قائد کا یقیں محکم ' کثرت جمہور ہو راضی
جس قوم کا معلم دیتا ہو منافقت کا درس
ٹوٹ سکتا نہیں اس ملت کا طوق غلامی
یہ میرے وطن کے غریبوں کی دلکش ادائیں
اپنی مفلسی میں مدہوش امرا کے گیت گائیں
ان کے ٹکڑوں کو سمجھیں وہ عطا ان کی
جو دے کے صدقہ انہیں حق انکا خود کھائیں
کہے تکبیر وہ، جو مارے مجھے
کہی تھی تکبیر، جب مارا اسے
شہادت ملے کہ نہ ملے ہمیں
حلال مگر ہم دونوں ضرور ہوئے
ملاوں کے پاس ہیں فتوات بہت
کافر بنانے کے ہیں حربات ہہت
عصرحاظر کی اذاں سے سروکار کیا
ان کو پسند آتے ہیں حلوات بہت
معجزہ سے کبھی ایماں نہیں بنتا
ورنہ ابوجہل بھی بے ایماں مرتا ؟
عیاں ہیں اس کے نشاں چار سو
نظام خدا خرد سے اجتناب نہیں کرتا
کہے تکبیر وہ، جو مارے مجھے
کہی تھی تکبیر، جب مارا اسے
شہادت ملے کہ نہ ملے ہمیں
حلال مگر ہم دونوں ضرور ہوئے
اک نئی دنیا ہے ہر روز
تو مگر وہی ہے امروز
ملاوں کے پاس ہیں فتوات بہت
کافر بنانے کے ہیں حربات ہہت
عصرحاظر کی اذاں سے سروکار کیا
ان کو پسند آتے ہیں حلوات بہت
معجزہ سے کبھی ایماں نہیں بنتا
ورنہ ابوجہل بھی بے ایماں مرتا ؟
عیاں ہیں اس کے نشاں چار سو
نظام خدا خرد سے اجتناب نہیں کرتا
کہے تکبیر وہ، جو مارے مجھے
کہی تھی تکبیر، جب مارا اسے
شہادت ملے کہ نہ ملے ہمیں
حلال مگر ہم دونوں ضرور ہوئے
قانون کائنات سے' اس جہاں کی ابتدا ہے
وسعت جہاں کی' تیرے تخیل کی انتہا ہے
اے ہاکنگ آ سمجھاؤں تجھے یہ نقطہ قانون
دستور جہاں ہی' اصل میں نشان خدا ہے
وقت ہے پیمانہ تیرا ' تیرے گردش ایام کا
اس میں پوشیدہ ہے راز تیرے دور تمام کا
اس قید وقت میں' قبل و ازل کی خبر کیا
صداے کن فیکون ابتدا' وقت مکرراختتام کا
(محمّد شہباز انور ٢٠١٤-٠٥-١٢)
سانسوں کے موتی گنے جا رہے ہیں
ترے آنے کے رستے مٹے جا رہے ہیں
ہوش میں رولائیں ہیں بہت تیری یادیں
ترے بھلانے کیلئے پیئے جا رہے ہیں
آے تھے اس جہاں اک عہدے وفا لیئے
ہم شب و روز بے وفائی کیئے جا رہے ہیں
مر جائیں گے تجھ سے بچھر کے شہباز
اک مدت ہوئی کہ جیئے جا رہے ہیں
جستجومیری کوہ طورنہیں
تمنا میری باغ حور نہیں
میرا عشق لا الہ الا اللہ
تو ہی تو کوئی اور نہیں
سانسوں کی غزل کو، آغاز موت سے کرنا ہو گا
بےموت زندگی کیلئے، اک بار پِھر سے مرنا ہو گا
جب تلک دل میں اترے ہے، تیرے ہجر کا درد
آتش عشق میں مثل پروانہ، ہنوز ہمیں جلنا ہو گا
تاریک راہوں میں چھوڑ کے، پُرنور جہاں میں جا بسے
اب تمہیں پانے سے قبل، دوزخ سے بھی گزرنا ہو گا
تجھ سے جُدا ہوے یوں، خود سے ہی بچھڑ گیے
ہم رکابی کیلئے بتا تو سہی، اور کیا کرنا ہو گا
کائنات ہےازل سےمحوِگردش، نقطہءِ ابتدا کے گرد
جہاں سے ہوئی ہے ابتدا، اب وہیں پہ جانا ہو گا
سجدہ وہ جو زمیں کو تھرا دے
دعا وہ جو عرش کو ہلا دے
الہی عطا کرمجھےتوشان خدا سے
عشق جو حقیقتوں سے پردہ اٹھا دے
مشکل ہے وہ سچ بولنا
جو بنی حقیقت کو جھٹلاے
زباں کی جو گرہ کھلے
تو گلے کو ہے آئے
چھوڑو ان باتوں کی باتوں کو نہیں چلے گا کام اب باتوں سے
باتوں کے یہ بھوت نہیں ہیں یہ تو مانے گے صرف لاتوں سے
میرے لوگو سبق سیکھو اس معصوم اعتزاز کی شہبازی سے
سب ایک ہیں کوئی نہیں شیعہ سنی کیا ملے گا ان ذاتوں سے
مانا کہ یہ پنجر ہے میرا خاکی
مگر قید ہے اس میں آدم افلاکی
بخشسی گئی ہے مجھے پہچان علم سے
معاف کرنا یہی سکھلاتا ہےمجھےبیباکی
اک روز ملا نے یہ گاتے ہوے فرمایا
جس نے گانا گایا جہنم میں مقام پایا
ظلم تو عروج پہ ہے کب سے
تیرا طور ٹھنڈا پڑا ہے جب سے
ان فرعونوں نے بچے بھی مار ڈالے
اب تو کوئی موسیٰ نکال ہم سے
(محمّد شہباز انور)
کہاں جانا ہے مجھے ' کہاں ہے میرا مکاں ' خدا جانے
امیر ہوں جس کا ' کب آے وہ زماں ' خدا جانے
خود سے بھی چھپ کے ' تیری تلاش میں نکلا ہوں
کافر که کے مجھے ' کون لیلے میری جاں ' خدا جانے
سر تو سجدے میں ہیں ' مگر غور و فکر سے خالی
کون جگاے گا چراغ ' کب آے امام جہاں ' خدا جانے
آنکھوں پہ لالچ کے پردے ' دل پہ نفرتوں کے قفل
پتلا گندی مٹی کا ' کب بنے گا انساں ' خدا جانے
میرے ہی رہبر نے مجھے' بے راہ کر دیا شہباز
ان خودپرست رہبروں سے'ملے گی کب اماں'خدا جانے
(محمّد شہباز انور: ٢٢-٠٣-٢٠١٤)
میاں کوئی تو وعدہ وفا کیا ہوتا
اپنے ملک کابھی دورہ کیا ہوتا
تحفظ تعلیم توانائی بڑی چیز ہے میاں
اپنے سر جسا الو ٹماٹر پیدا کیا ہوتا
دنیا کی آلائشوں سے گر بےنیاز ہوتا
مقدر پہ اپنے مجھے بڑا ناز ہوتا
میسر ہوتی صحبت گر شاہ نشینوں کی
عمل کا شاہین ہوتا نام کا شہباز ہوتا
دل تو کرتا ہے کہ اور گناہ کروں
دل کو اپنے سیاہ تر سیاہ کروں
پر نور دل میں تیری یاد بستی ہے
اس بے رحم مکین کا مکاں تباہ کروں
تسبیح سزاوار ہے تجھے فرشتوں میں اٹھانے کیلئے
جستجو علم لازم ہے تجھے انساں بنانے کیلئے
دل درد سے بھر آتا ہے جب بھی تیری یاد آتی ہے بہہ نہ جاٴے کہیں تیری یاد ڈر سے آنسو دبا لیتا ہوں
گناہگار ہوں میں تیرا نہ نکش میرا نہ نشاں میرا
غفور و رحم ہے تو سب نکشوں پہ ہے نشاں تیرا
دونوں جہاں ترے زمین و آسماں کے خزانے تیرے
عطا کر شان خدا کی طرح بخشنا ہے شیوا تیرا
پیار کا پیعمبر ہوں کوئی نہیں ہے دشمن میرا دلدریا دوستوں کی بستی میں ہے نشیمن میرا ایمان میرا اشتراکیت اور انفرادیت کا ہے کفر عشق محبت تبلغ میری' انسانیت ہے دین میرا
امیر میرا شکست خوردە، قبیلە منتشروبےعَلم
مقام اپنا میں پاوں کیونکر، معلم میرا لا علم
پوشیدہ ہے تیرا مقدر تیرے ہاتھ کی لکیروں میں
لکیریں تیرے ہاتھ کی ہیں تیرے ہاتھوں میں
(19th January 2013)
Inordinate Revolution
When imam (leader) and awam (people) will be indistinguishable, inordinate revolution will be at your gate. (18th January 2013)
Scientific Approach
Your approach shall be scientific if you approach a falling apple without eating it, otherwise you are a politician. (16th January 2013)
Go-ahead and take a risk
We don't know how many civilizations have been swept away from this green and shielded floor of the earth. Perhaps, there was at least one among those was better than us in human development, understanding, and knowledge. Some shuffling in the neighborhood or below or above them put them in a hidden cemetery in the fraction of a minute. If we try to find the answer of the question “How?”. We come out with the answer that we are surrounded by a belt of billions of heavy weight meteorites; we are walking on meta-stable earth plates those are floating in the salty cold, and the hot dense oceans. A little move out of the equilibrium may result catastrophically. It sounds that our future is certainly in danger. So never hesitate to take a risk to make your future but try to advance in equilibrium. Go-ahead...... (15th September 2012)
Don't try to get a smooth life
Life is like an electrocardiogram, with ups and downs. In either case, a flat line should be avoided.. (19th October 2011)
One experiment
One experiment is more valuable than hundred expert opinions. (19th October 2011)